Sunday 21 December 2014

آج کا دن

آج کا دن

                                         by SAd



ٹیاؤں!! ٹیاؤں!! ٹیاؤں!! 
ٹیں ! ٹیں! ٹیں!
ٹوں! ٹوں! توں!
ٹیاؤں!  ٹیاؤں! ٹیاؤں!
کی آوازیں مسلسل میرے کانوں میں گونج جا رہی ہیں. مجھے کچھ علم نہیں کہ مجھے کہاں لے کے جا رہے ہیں بس ان عجیب سی آوازوں سے میرا سر چکرا رہا ہے. میرے سامنے کھڑے دو شخص، سخت پریشانی کے عالم میں، ایک دوسرے پر چینخی چلائی جا رہے ہیں اور مجھے ان کی ایک بھی بات سمجھ نہیں آرہی اور مجھے کافی دھندلہ دھندلہ سا دکھائی دے رہا ہے. شاید میری بینائی بھی اب میرا ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے. مگر میرا دیہان تو صبح کے منظر میں لگا ہے. آج کا دن کچھ زیادہ ہی لمبا معلوم ہو رہا ہے.

میں آج صبح سات بجنے کے باوجود سو رہا تھا. میری فجر کی نماز بھی چھوٹ گئی تھی. عموماً میری گھڑی کا الارم صبح ٦:١٠ پر روزانہ بج جاتا ہے مگر نجانے کیوں آج اس کے سیل ہی ختم ہو گئے. عین چھ بجے پر سوئی اٹک گئی. میں ابھی نیند میں ہی مدہوش تھا کہ اک دم میرے کانوں میں دروازہ کے کھٹکنے کی آواز سنائی دی اور میری آنکھ کھل گئی.

"بلال! بلال بیٹا! تیار ہو گئے ہو تو ناشتہ کر لو، ابھی دس منٹ میں گاڑی آجاۓ گی. جلدی سے نیچے آجاؤ اور ناشتہ کر لو. آج تمہاری پسند کے سلائس بنائے ہیں."

مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے مجھے کوئی شاک دے دیا ہو. "او میرے خدایا! اتنا ٹائم ہو گیا. اف! اب اتنی جلدی تیار کیسے ہوئںگا. آج تو انسپکشن بھی ہے." میں نے من ہی من میں چھٹی کی پلان بنانا شروع کر دیا مگر پھر نجانے مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آئی. میں اٹھا اور اٹھ کر تیار ہونے لگ گیا. غلطی سے کپڑے میں نے رات کو ہی استری کر لئے تھے تو بس منہ شوں دھویا، کپڑے شپڑے پہنے اور سیدھا کھانے کی میز پر پہنچ گیا.

"سعد! آج تم نے پھر دیر کر دی. اب تم پھر آدھا سلائس کھاؤ گے اور پھر تمہاری بس کی پاں پاں ہوگی اور تم بھوکے ہی چلے جاؤ گے." امی جان نے آج پھر مجھے صبح کو ڈاندٹنا شروع کر دیا اور وہ بھی اسی وجہ سے جس وجہ سے پہلے ڈانٹتی تھیں. میری امی مجھے اتنا ڈانت ڈپٹ  نہیں کرتیں بس جس دن میری قسمت خراب ہو تو اس دن میری بہت بےعزتی ہوتی، نہ صرف گھر میں بلکہ اسکول میں بھی. مجھے اندازہ ہو گیا کہ آج وہی دن ہے. اسی لئے میں چپ چاپ سر جھکا کر معصوم بچے کی طرح بیٹھا رہا. اور امی جان بولتی گئیں اور میں سنتا رہا.

مگر ہائے کمبختی میرے منہ سے کیا نکل گیا. "مما! اسکول میں بریک کے وقت لنچ کر لوں گا ناں، آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسی آج میں ناشتہ نہیں پورا کروں گا تو مر ہی جاؤں گا" اچانک ماحول میں خاموشی نے بسیرا ڈال دیا. ایسا لگا جیسے کسی نے واقعے میں بری خبر سنا دی ہے. مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب میں کیا کہوں. میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک پاں پاں کی آواز آئی اور میں جلدی سے خدا حافظ کہہ کر اپنی ماں کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا گیا.

میری آنکھوں کے سامنے کھڑے بندوں کے چہروں پر اب پریشانی بڑھنے لگی ہے. دسمبر کے مہینے میں پسینے سے ان کے چہرے بھر رہے ہیں. میرے چہرے پر جو خوشی کچھ دیر پہلے نمایاں تھی وہ اب شاید دم توڑ رہی ہے. دل کی دھڑکن تیز اور سانس پھول رہا ہے. مگر میرا سر فخر سے بلند ہے، میرے حوصلے جوان ہیں، مگر دل! میرا دل پھر بھی غمگین ہے. آج کا دن ہی کچھ عجیب سا ہے.

اسکول کے راستے میں تو سب کچھ نیا نہیں تھا. وہی  بس، وہی اونچی نیچی سڑک، وہی ڈرائیور اور وہی روز کی کھٹ کھٹ، 'میں نے آگے بیٹھنا ہے، میں نے آگے بیٹھنا ہے' اور میرے ساتھ کون؟ وکی!!! ہائے وکی!!!وکی!! میرا دوست!

ہم پہلی دفعہ پہلی جماعت میں ملے تھے. وہ دن ہے اور آج کا دن، ہم ایک ساتھ ہی ہیں. نہ اس کا میرے بنا اور نہ ہی میرا اس کے  بنا اسکول میں دل لگتا تھا اور شاید اسی لئے آج آٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم دوست تھے. ہم کو کتنی ہی دفعہ تو سزائیں ملی. کبھی  کلاس میں باتیں کرتے هوئے تو کبھی کسی کی نقل اتارتے وقت اور نہیں تو ویسے ہی کوئی گڑبڑ ہو جائے تو ہم معصوموں کا نام ہی سامنے آتا تھا. اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بلکل ہی نیلے تھے بلکہ ہمارا شمار تو ہونہار طلبہ میں ہوتا تھا. بس اک ہی مسلہ تھا کہ وکی ہمیشہ مجھ سے سبقت لے جاتا تھا اور آج بھی اس نے یہی کیا....

جوں جوں وقت گزرہا ہے میرا دل گھٹ رہا ہے. ہمیں ہمارے استاتزہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ بیٹا گزرا وقت واپس نہیں آتا، آج پڑھ لو پھر موقعہ نہیں ملے گا. آج ہی سے محنت کرنا شروع کر دو اور ہم نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دی مگر وہ سہی تھے جو ہو چکا وہ اب واپس نہیں ہو سکتا ہمیں آگے کا سوچنا ہے اور آگے بڑھنا ہے اور مجھے تو اپنی منزل سامنے ہی دکھائی دے رہی ہے.

صبح کو ہم اسکول وقت پر ہی پہنچ گئے تھے اور اسمبلی کی مشقت کے بعد انسپکشن کا وقت آخر آ ہی گیا. خیر میری قسمت اچھی نکلی کیونکہ جب میری چیکنگ کی باری آئی تو مانیٹر کو میڈم نے بلا لیا اور میری بلے بلے ہو گئی. بس پھر وہی گھسیٹی پیٹی کلاس میں ہم واپس چلے گئے. پر آج میرا دل سکول میں لگ نہیں رہا تھا. وقت گزارنا محال ہو رہا تھا. خدا خدا کر کہ پہلی کلاس ختم ہوئی اور میں نے سکھ کی سانس لی. میں نے وکی سے کہا، "چل یار! باہر کی ہوا کھا کر آتے ہیں" مگر جیسے ہی باہر نکلنے لگے تو سامنے سر ظہیر میتھ کی کلاس لینے کے لئے تیار کھڑے تھے. ان کو دیکھ کر میرا سر گھومنے لگ گیا تھا.

"بیٹا! کدھر جا رہے ہو؟ چلو شاباش! کلاس کا وقت ہو گیا ہے، چلو کلاس میں" سر اپنے مخصوص انداز میں بولتے ہوئے ہمیں کلاس میں واپس لے گئے. بس وہی پل تھا، ہاں وہی پل تھا جب برا وقت شروع ہو گیا تھا. سر ابھی کلاس میں آئے ہی ہونگے اور ہم اپنی نشت پر براجمان بھی نہیں ہوئے ہونگے جب اچانک ایک خوفناک سی آواز نے ہمیں ہلا کر دیا. ایسا لگا کہ کسی نے کوئی دروازہ زور سے بند کیا ہو اور پھر دروازے کی دوسری طرف سے بندے نے اسے ایک ہی وار میں توڑ دیا ہو. کلاس میں اس وقت مکمل سناٹا تھا اور ہر کوئی حیران تھا کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے؟

                                                                         End of Part 1
 To be Continued     

Thursday 18 December 2014

امید

امید

SAd                   




اداس دلوں میں ایک بار پھر سے جان بھر دی
میرے ملک کے بڑوں نے کچھ دوا جو کر دی

درندوں کی ٹھا ٹھا نے عجب رغبت پیدا کر دی
دشمن دھڑوں میں بھی یکجہتی کی فضا پیدا کر دی

ماتم بچھا ہے پھولوں کے شہر میں گلی گلی
مگر ایک ملاقات نے کچھ سوزش کم کر دی

لڑتے، جھگڑتے، انسانوں کی بلی چڑھاتے وحشی
امن پسند لوگوں پر تونے یہ کیسی دہشت پیدا کر دی

ہے پوری قوم رنجیدہ، ماؤں کے کلیجے چھلنی
او ظالم! یہ تو نے  کیسی یہ قیامت بھرپا کر دی

جن ہاتھوں میں ہوتی تھی کاپیاں کتابیں کل تک
ان ہاتھوں میں دوستوں کی لاشیں ہی رکھ دیں

تجھ کو برا بھی کہوں تو کن الفاظ میں کہوں ظالم
تو نے تو بربریت کی  تمام حدیں بھی ترک کر دیں

ڈوبتی نییہ میں پھر سے اک نئی امنگ پیدا کر دی
حکمرانوں نے آج اپنی انا ایک طرف جو رکھ دی 

لوگ کہیں گے جھلے دلاسوں نے تیری آنکھ بند کر دی
 مگر اک فیصلے نے دل کی ساری رنجش دفع جو کر دی

اکٹھے ہونے کا وقت آگیا ہے میرے ہم وطنوں
شکاری نے آج خون سے ندیاں جو تر کر دیں

غم تو بہت بڑا ہے، فقط درد تو بہت سہا ہے
 مگر اک امید نے تھوڑی سی عیادت کر دی

جینے کو تو پوری عمر پڑی تھی
آخر زندگی ہی نے ہی نہ کر دی

مانگوں بھی تو بھلا اب مغفرت کیسے مانگوں
میرے رب نے بچوں کی مغفرت ویسے ہی کر دی


پشاور سانحے کے بارے میں میں کیا کہ سکتا ہوں. کیا لکھ سکتا ہوں، میرے پاسس تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ میں اس واقعہ کا ذکر بھی کروں. اب جو یہ ہو چکا ہے تو ہمیں جگ جانا چاہیے وار اس چیز کو ممکن بنانا چاہیے ک یہ آخری دفعہ ہے. ایسا واقعہ نہ پھر کبھی ہو گا اور نہ کبھی ہونے دیں گے. اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے والوں سے ایک ایک چیز کا حساب لینے کا وقت آگیا ہے. اگر پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنا ہے اور اگے بڑھنا ہے تو ان درندوں کا جڑ خاتمہ سے خاتمہ کرنا ہو گا. بس بہت کوتاہی ہو گی، بہت نظریں چرا لی بس اب تو اینٹ کا جواب پتھر سے ہی ہوگا. اور یہ پتھر آخری پتھر ہی ہوگا....

Friday 7 November 2014

شاید

شاید
         نائیل

زمانے کے فسانوں میں تم بھی تھے شاید
جینے کے بہانوں میں تم بھی تھے شاید

کر لئے تھے سارے جتن تم کو پانے کے شاید
نصیب تھا  کہ قسمت میں تم نہیں تھے شاید

نکلتے تو دیدار کے لئے ہی تھے شاید
لے کر سودا آتے خالی ہاتھ تھے شاید

چاہ میں دوریاں کچھ کم تھی شاید
کہنے کی بس ہمّت نہ تھی شاید

کھڑے تم بھی اسی انتظار میں تھے شاید
مگر ہم ہی جھلے کچھ سمجھ نہ سکے شاید


وقت نے پھر خود ہی لے لی کروٹ شاید
ہم اپنی ہی نظروں میں گرتے گئے شاید

ایسا لگا جیسے اب تم بھی راضی ہو شاید
 مگر عزت کی خاطر چپ ہی کر گئے شاید


ہارے تو ابھی بھی نہیں ہیں بازی شاید
مگر جیتنے کی لگن ہی نہیں رہی شاید

زمانہ تو ہمیں ہی ناکام عاشق کہے گا شاید
بس تم جی لو، ہم بھی جی ہی لیں گے شاید

Sunday 19 October 2014

یار

یار
         SAd



تھیں حسیں وہ یادیں، تھے حسین وہ خواب 
جن کو ہم دیکھا کرتے تھے ہزار بار

لڑتے تھے پل پل، جگھڑتے تھے بار بار
مناتے تھے پھر سب کو، اکٹھے تھے سب یار

دکھ تھے کچھ کم کم، خوشیاں تھی بے حد
اسی لئے رہتے تھے ہر دم ہم  تیار

سنتے تھے اک دوجے کو، سمجھتے ہر بات
تھے کھیلتے کودتے گزر جاتے دن رات

پر جیسے ہی ہوئے جواں ہم
ہو گئے مصلحتوں کا شکار

فقط چھوٹی سی باتیں تھی اب ناقابل برداشت
غلطی تھی کس کی، نہ جانے کس کی تھی چال


دوستی تھی جو کل تک، دشمنی تھی اب بے باک
بکھرے پتے سب آخر آندھی کے ہی ساتھ

پھر شروع ہوئی کھینچا تانی
لگے کرنے سازشیں بے شمار

اس نے یہ کہا، میں نے یہ سنا، نہیں نہیں وہ تو یہ کہتی تھی
اس پر تم لعنت بھیجو بن کے میرے سچے یار

کل تک جس کے سامنے نظریں نہیں اٹھتی تھیں
پکڑنا تھا اس کا گریبان، لے کر بدلہ ہی ملنا تھا قرار

عزت تو پھر آج رولنی تھی
آخر کب تھی یہ کسی کی میراث

ہوا پھر کہیں سے اک مسیحا نمودار
کہا کسی کو کچھ، چل دیا پھر ہو کر بے اختیار

لگنے لگا کہ دل کی دھڑکن کچھ رک سی گئی
اسے ملنے کی شمع بج جو گئی تھی یار

نہ آیا وہ مسیحا، بیت گئے لمحے ہزار
میرا رب ہی تھا شاید میرا رازدار

ہو کر مجبور ہم خود ہی پہنچ گئے بہت دور
دیکھ کر بھول گیا وہ زمانے کے سب دستور

لگایا گلے سے، رولایا دل سے
بٹھایا آنکھوں میں، ملا وہ بہت شدت سے

معلوم ہوا کہ پہلا قدم ہی اٹھانا تھا  دشوار
بس یونہی کر لی تھی انا سر پر سوار

وہ تو تھا معافی مانگنے کے لئے ہمیشہ سے تیار
کچھ سجن تھے بس بہت ہی ہوشیار

ڈالتے رہے دوستوں میں دراڑ
نہ  سمجھ سکے رویے پراسرار

ٹھانی پھر کبھی نہیں بنے گے کٹھ پتلی
بن کر رہیں گے ہمیشہ کی طرح یار

چاہے کر کے دیکھ لو اب سازیشیں ہزار
 نہیں چھوڑیں گے ہم ساتھ اب کی بار

لڑیں گے اکٹھے، مریں گے اکٹھے
رہیں گے جو اب بن کی سچے یار
 
           اس دنیا بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دو دوستوں کو کبھی اکٹھا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ خود ان کا کوئی سچا دوست نہیں ہوتا. اسی لئے وہ جب بھی دو دوستوں کو اکٹھا دیکھتے ہیں تو ان کی جڑیں کاٹنے میں لگ جاتے ہیں. مگر اگر دوست سچے ہو تو ان سازشوں کا ہر وار بے اثر جاتا ہے. اس نظم ایسے ہی ایک واقعے کو موضوع بحث بنایا ہے. امید ہے اپ کو پسند آئے گی.

Saturday 11 October 2014

ایک طالب علم کی دہائی

ایک طالب علم کی دہائی 

                       (SAd special)



پوچھا کسی نے بیٹا کیا کرتے ہو
آخر کیوں نظروں سے بچتے پھرتے ہو

بولا چچا!! بس یوںہی پڑھائی کے چکر میں خوار ہوں
شاید اسیلئے تو دوسروں کی نظروں کا شکار ہوں

صبح سویرے جو گھر سے نکلتا ہوں
پھر رات گئے جا کر لوٹتا ہوں

راتوں کو جاگ جاگ کر ان کتابوں سے گھولتا ہوں
مستقبل کی خاطر ہی یہ سب کچھ جھیلتا ہوں

تاریک راہوں میں روشنی ڈھونڈتا ہوں
دین اور دنیا دونوں سے دوریا جھیلتا ہوں




 خوشی کے لمحوں سے دور امتحانوں سے الجھتا ہوں
عید، شبرات، شادی و بیاہ سب معذرت سے پیلتا ہوں

عاشقی کے موسم میں فضول نوٹس ڈھونڈتا ہوں
باتوں ہی باتوں میں دنیا کے داؤ پیچ بیلتا ہوں

باپ میرا میری علیم کی خاطر لہوں خرچ کرتا ہے
آخر اسی کے پیسوں سے اپنے خواب دیکھتا ہوں


ہاں پڑھائی کی ہی خاطر تو گھر سے نکلتا ہوں
نہ جانے کیوں اس کی بانہوں میں جھولتا ہوں

ضرورت کو محبت کا نام دے کر
زمانے کے داغ دامن میں سمیٹتا ہوں

بس آخر میں جب بہت تھک جاتا ہوں
ادھر ادھر کے کاموں میں سکون ڈھونڈتا ہوں

کبھی پان، کبھی سگرٹ، اور کبھی چھالیہ
نہ کام بنے تو نشے میں راحت ڈھونڈتا ہوں

آدھی زندگی پڑھائی کے چکر میں 
باقی کچھ بننے میں گزار دیتا ہوں

ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی
رب سے ملنے کی تیاری کس وقت پر چھوڑتا ہوں

ضمیر میرا مر چکا ہے شاید
اسی لئے غیرت کو پیسوں میں تولتا ہوں

یہ دنیا اپنے اشاروں پر نچاتی ہے
اور اسی کے اشاروں پر ناچنے کو دوڑتا ہوں

بس اس نظام سے کیا گلا کروں
آخر خود ہی میں خود سے کھیلتا ہوں


اس نظم میں نے ہمارے اعلی تعلیمی نظام پر تھوڑی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے. میں نے اس میں طالب علموں ک مسائل اور ان کی اندر کی برائیوں کا تذکرو کر نے کی کوشش بھی کی ہے. ہمیں کچھ ایسے چیزوں پر روشی ڈالنے کی ضررورت ہے جو معاشرے کی نظر سے بالاتر ہیں اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے. میری نظر انقلاب مورخہ ٢٨ اگست سے مکمل ہے مگر جب تک یہ دھرنے ختم جاتے میں اس کو پیش نہیں کر سکتا. امید ہے اس نظام میں جو پیغام میں نے دینے کی کوشش کی ہے وہ  سمجھ سکیں.

شکریہ !!! 

Sunday 28 September 2014

پچھتاوا

پچھتاوا 

                   نائیل



زندگی نے بھی عجب ظلم ڈھائے  
ہمیں خود ہی سب غم دکھائے

ہم نے تو بس اک خوشی کی تمنا کی تھی 
نجانے اس نے کیوں اتنے پڑکھچے اڑائے


کیا ظلم کیا تھا ہم نے دل لگا کر
آخر کیوں بے وفائی کے بادل چھائے 

کونویں میں تو گر ہی گئے تھے شاید
اسی لئے ادھر ادھر کے اتنے چکر لگائے

 پھنس کر رہ گئے تھے ہم تو بیچ میں
نہ تمھیں چھوڑ سکے اور نہ ہی چھوڑ پائے  



تم تھی سماج کی دیواروں میں قید تھی شاید 
پر تم کو تو کیا ہم خود کو بھی نہ چھڑا پائے  

لگا کھونے سے جیت جائیں باقی تو کیا ہے غم 
آخر چھوڑ کر تم کو پھر بھی نہ جیت پائے 

جانتے ہیں کہ چھوڑا تو تم نے ہی تھا
مگر آج پھر ہم خود ہی قصور وار کہلا ئے 

تو کیوں بیتے لمحوں کو یاد کرتا ہے نائیل 
آخر کیوں کر تو ایسے ہی اپنا دل جلائے

Monday 22 September 2014

کج نئ

کج نئ 

(SAd Special)               























پڑھ پڑھ کے بوڈھے هوئے
لبیا فے وی کج نئ

کھپ کھپ کے ادھے هوئے
ملیا فے وی کج نئ

جگ جگ کے راتاں  لمیاں
لیاں ذہنی تنشناں

نینداں شینداں برباد کیتیاں
کھٹیا فے وی کج نئ


عیداں تے شبراتاں سب ویران کیتیاں
کیتا فے وی کج نئ


راواں تک تک جوان هوئے
گلاں کر کر قربان هوئے

وڈے تو وڈے گراں تکے
تکیا فے وی کج نئ


بس ایویں ادھی زندگی ننگھا چھڈی
کمایا فے وی کج نئ

جداں جداں ودھ دے گئے
 اودھاں اودھاں نوے سیاپے کھل دے گئے

بابے ساڈے گزر دے گئے
چرچے ساڈے ود دے گئے  

کی کھیڈنے سی کھیڈ تماشے
کی جتنے سی کپ سوادے

میدان تے سارے ویران کیتے
جتیا فی وی کج نئ


کس دنیا دے چکر چوں پے گئے آں
ایتھے محنت مشقت دا سلا کج نئ

لے کے کاغذی ڈگریاں ہن کوم دے آں
منتشر مشاقی دا فائدہ کج نئ

ساڈا تے شید قصور تھوڑا سی
ملیا اس نظام توں وی کج نئ

مگر کج نہ کج قصور تے ساڈا وی سی
بغیر منیۓ نتیجہ کڈنا کج نئ

اسی لا چھڈیا تھیان کمائی تے سارا
کم دا ہنر سکھیا بجھیا کج نی

جتھے مقصد سیکھنا سی
اوتھے سکھیا کج نئی

پال لے سپنے وڈے وڈے 
لا لیاں امیداں کھڑیاں نال

جینا شینا چاہنا واھنا کی سی 
جدوں سوچاں کیڑیاں ورغیاں

ملنا کی سی 
کج نئی

ہن وی ٹائم آ جے سمجھ جھائیے
کے کی ساڈی جندڑی کی ساڈے شوق 

کی اسی چاہنے آں تے کی اسی منگنے آں
جے سمجھ جائیے تے چکڑھ مٹی وی کج نئی

امیداں ساریاں اس رب توں رخئیے
شروع کر دئیے منجھ محنت مشقتاں

پل جھائیے باقی بہانے فسانے
ورنہ اگے وی لبھنا کج نئی


میں کافی دنوں سے نظم لکھنے کی کوہشش کر رہا تھا مگر ٹائم نہیں مل رہا تھا اور مسلہ یہ بھی تھا کے میں آن لائن نہی ہو پا رہا تھا. آج سوچا کیوں نہ لکھ ہی دیں. پنجابی میری اتنی خاص نہیں ہے اسی سے آپکو گزارا کرنے پڑے گا. پر یہ میں نے اپنے دل سے لکھی ہے اور مرے جیسے لاکھوں نوجوانوں کی عکاسی کرتی ہے. امید ہے کے آپ اس نظم کے مقصد کو سمجھ سکیں.

شکریہ!  

Friday 5 September 2014

ThAt CAN STILL BE

ThAt CAN STILL BE

             by SAd



I am pretty much like a lost man

Floating in the middle of an ocean

Searching for the light

Light that can save my life

Life that can still be liked

Life that can still be fight

Fight that can still be might

Might that can still be right

Right that can still be acquired

Right that can still be sight

Sight that can still be white

White that can still be bright

Bright that can still be light

Light and quite

Quite but can still be at some height

Height that can still go along with the night

Night that can still give birth to knights

Knights that can still get the flight

Flight that can still be precise

Flight that would give the perfect bite

Bite that will give rise to new life

Life that will no longer be tight 

And then the main idea will get the true respite 

In the end, We all gonna make the everything bright



Normally I won't write in english because I believe my english is that much bad that I can't write a single line but sometimes I used to make up my mind. I start writing randomly and then the get idea right and then just in the matter of minutes I would create the best I can. Well as far as this one is concern, this one again fit my 15 minutes story i.e I actually wrote this in 15 minutes last night. I hope you'll like it. 



Thursday 28 August 2014

امتحانوں کے دن

امتحانوں کے دن 

                        نائیل 






چلو آج پھر سے خوشیاں منائیں
دل کا دل سے میل ملائیں

ایک بار پھر سے وہ زمانہ جیئیں
کچھ یاد کریں اور کچھ یاد کرائیں

وہ امتحانوں کے دن تھے شاید
مصیبتوں کے دن تھے زائد

تیاری تو برائے نام ہی تھی
 زندگی بھی کسی کام کی نہ تھی


ہم کچھ عجیب تھے نقل کرنا تو ٹھیک
مگر پکڑے جانے کو اک جرم مانتے تھے

اتنا معلوم تھا کے بن ثبوت کے استاد بھی کچھ نہ تھا
اسی لئے بوٹی تو کیا اس کا نام-و-نشان نہ تھا

گزرا تھا پہلا پرچہ بہت ہی بھاری
دوسرے کا تو سرے سے سوال نہ تھا

دے کر پرچہ کی تھوڑی مستی
چونکہ لوٹنا سرعام نہ تھا

پھر پہنچے اسی جگہ جہاں کوئی کام نہ تھا
 میرا اور میرے رقیب کا کوئی گمان نہ تھا

ہمیشہ کی طرح ہانکنے لگے گپیں، کرنے لگے چرچے
گزرتے لمحوں کا ذرا بھی حساب نہ تھا


نجانے وہ کیسی آہٹ تھی
شاید ساری زندگی کی چاہت تھی

بےاختیار چل پڑا کہہ  کر خدا حافظ 
 ملنے ملانے کا وقت اب کام نہ تھا 

چل جو پڑے تھے اس کے دیدار کی خاطر
چونکہ چوکھٹ سے اس کی کچھ عیاں نہ تھا



قسمت کچھ ایسی چمکی جس کا حساب نہ تھا
دیکھ کر اس کو پھر سے سر اٹھا نہ تھا

آخرپھر وہی غصّہ کر گیا گھائل 
پھرکیوں نہ دیتا دل تو نائیل 

خوشیوں سے بھرے تھے باقی سب پل
پھر پیپروں سے بھی کوئی گلا روا نہ تھا


پھر خوب محنت کرنے لگے تھے ہم
منصوبہ جو کھونے کا جواں نہ تھا 

Sunday 24 August 2014

اپنوں میں

اپنوں میں 

                   SAd 



کیوں ڈھونڈتا ہے خوشی کے لمحے؟ 
وہ ملتے تو بس اپنوں میں ہی ہیں

یہ پہاڑ، دریا اور سمندر روز دیکھتا ہے
پر  کھلتے  تو آخر اپنوں  میں  ہی  ہیں


عیدیں، شبراتیں سونی سونی سی لگتی ہیں
کیوںکہ اصلی خوشیاں تو اپنوں میں ہی ہیں

کیوں ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا ہے
 آخر منزل تو اپنوں میں ہی ہیں

نجانے کیوں روزی کی خاطر دس بدیس بھٹکتا ہے
روکھی سوکھی کھانے کا مزہ تو اپنوں میں ہی ہے

چاہے لاکھ پریشانیوں میں گھیرا ہو میرا وطن
مگر جینے کا اصل مزہ تو اپنوں میں ہی ہے

جانے کس چیز کی تلاش ہے تجھے
ارے چاہت تو بس اپنوں میں ہی ہے


Wednesday 20 August 2014

ہوس اقتدار

ہوس اقتدار

by SAd                 




آج پھر ہوس اقتدار نے ہی لوٹا 
اس نے آخر بے یارومددگار سمجھ کر ہی لوٹا 

عاشق تو تھا وہ کرسی کا فقط
نجانے کیوں خود کو انقلابی کھلوا کر ہی لوٹا 

نکلا تھا دلوانے نام نہاد آزادی 
ارے! سب کو آخر غلام بنا کر ہی لوٹا 

دکھاتا رہا سہانے خواب سب کو  
پر نجانے کیوں بے آبرو کر کے ہی لوٹا 

انجانے میں ہم بھی ساتھ دے بیٹھے مگر 
کیا کریں آخر اس نے رسوا کر کے ہی لوٹا 

اب کس کی آس لگائے گا میرا وطن 
آخر اپنوں نے ہی بیگانہ سمجھ کر لوٹا 

کہنے کو تو بہت کچھ ہے شاید 
مگر آخر ہم نے ہی سنا ان سنا کر کے ہی لوٹا 

ابھی بھی وقت ہے بچانے کا اس دھرتی کو نائیل 
ارے جاگ جا! نہیں تو پھر کہے اک جرنیل نے آ کر ہی لوٹا 




Wednesday 6 August 2014

نئی محبت

نئی محبت

                 نائیل





چلو آؤ آج پھر تم کو اک کہانی سناؤں
عزت اور ذلت کی زبانی سمجھاؤں

دل تھا میرا اکیلا، ہو گیا گھائل

کچھ نہ سمجھا، بول گیا سائل

بےخودی میں بھی خودی کو ڈھونڈتا رہا جاہل
بہکا بہکی میں کر گزرا غلطی فاعل

کیا محبت، کیا عقیدت، کیوںکر کوئی راہ میں
 حائل
نفسہ نفسی کا عالم اور وہ تھے پہلے سے ہی قائل

یہ دنیا جھوٹی ہے، ڈھونڈتی ہے وسائل
یہ تو لذت ہے اور لذت کے مراحل

پاکیزگی بن گیا لفظ پرانا ساحل
ایک کے بعد دوجی، دوجی کے بعد تیجی

تیجی کے بعد چھوتھی

کیا یہ نہیں ہے نفرت کے لائق؟

شیطان تو تیرا اپنا نفس ہے کاہل
پھر دنیا کو کیوں کوستا ہے نائیل


میں نے یہ نظم چاند رات کو فجر کی نماز کے بعد لکھی تھی. اس دن میرا بہت جی کر رہا تھا کہ کچھ لکھو تو لکھ ڈالی. پھر مجھے ایک دوست نے اس کو اس وقت نہ شیر کرنے کا مشورہ دیا. اب یہ آپ ک سامنے حاضر ہے.