Monday 5 October 2015

جواب

جواب
              نائیل






اک ہی سوال تھا
اک ہی جواب تھا

معشوق سے سوال تھا
ناں میں ہی جواب تھا

قصہ تو وہیں تمام تھا
پھر کیوں اتنا اہتمام تھا

دکھ درد کا جو نظام تھا
فضول میں ہی رواں تھا

عشق کا یہی فلسفہ تھا 
عشق کا یہی تقاضا تھا

معشوق کی رضامندی پر
سارا جہاں قربان تھا



نفی میں بھی تو شاد تھا
نَفیءِ حَیات میں کامران تھا

انکار نے سب کچھ بھولا دیا
سارے اسباق کو جھٹلا دیا

رنجھ کو دل میں بسا لیا
غم کا تاج سر سجا لیا

انا سے جب ہاتھ ملا لیا
عرضی کو جینے مرنے کا مسئلہ بنا لیا

ریت رواجوں کو ٹھکرا دیا
گناہ کے رستے کو اپنا لیا



پانے کو تو پا لیا
مگر عشق کو بلی چڑھا دیا

عقیدت کے جذبے کو
ہوس نے عشق خام بنا دیا

 جب تک ہوش آیا
سب کچھ ہی گنوا دیا

کوسنے سے من بہلا لیا
مگر پاپ نے ڈنکا بجا دیا

پھر کیا دن کیا رات
بس مسجد کو ٹھکانہ بنا لیا



رو رو کر فسانہ بنا دیا
معافی کی طلب نے جوگی بنا دیا

معاقب خود کو کہلوا لیا
پھر بھی سجدے میں سر جھکا دیا

ساری زندگی کے لئے
 اک ہی کھٹکا لگتا رہا

جو رب نے معاف نہ کیا 
اگر دوزخ کو ٹھکانا بنا دیا

تو سب کچھ ہی ہار دیا
رسوائی نے گلے لگا دیا

مگر پھر قرآن نے سہارا دے دیا
میرے رب نے خود کو رحمٰن اور رحیم بتلا دیا

مغفرت کا رستہ دکھلا دیا
زخم پر مرہم لگا دیا

بھولے بھٹکوں کو رستہ دکھلا دیا
اپنی عظمت سے یہ نظام حیات چلا دیا




کافی دنوں سے ایک غزل جو لکھی ہوئی ہے اس کو مکمل کرنے کی کوہشش کر رہا تھا مگر کوئی فاقہ نہیں ہو رہا تھا تو آج مینے سوچا کچھ نیا لکھتے ہیں تو بس پھر بغیر کچھ سوچے سمجھے لکھنا شروع کر دیا اور جب اس کا اختتام ہوا تو کچھ ایسی ہی چیز میرے سامنے آگئی اور مجھے ایسے ہی چیزیں لکھنا پسند ہے. امید کرتا ہوں.

اعلان:-

  آپ لوگوں کو بتا کر مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ یہ میری G+ پر ٤٩ کاوش ہے. اب آپ میری بلاگ کھولیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو تو پچاسویں ہے مگر نہیں. ایک نظم مینے لکھی تھی اور پبلش بھی کی تھی بلاگ پر مگر آپ لوگوں کو پڑھائی نہیں تھی. تو سوال اٹھا کہ پھر یہ ٤٩ کیسے ہے تو اس بلاگ میں ٢ blogs ایسی ہیں جو مینے کسی سے لی ہیں اور وہاں بتایا ہوا ہے. اسی لئے میری اگلی کاوش ٥٠ ہو گی اور وہ ہو گی بھی پڑھنے لائق تو اس کا لازمی انتظار کی جئے گا.

شکریہ!!!!