Wednesday 6 August 2014

نئی محبت

نئی محبت

                 نائیل





چلو آؤ آج پھر تم کو اک کہانی سناؤں
عزت اور ذلت کی زبانی سمجھاؤں

دل تھا میرا اکیلا، ہو گیا گھائل

کچھ نہ سمجھا، بول گیا سائل

بےخودی میں بھی خودی کو ڈھونڈتا رہا جاہل
بہکا بہکی میں کر گزرا غلطی فاعل

کیا محبت، کیا عقیدت، کیوںکر کوئی راہ میں
 حائل
نفسہ نفسی کا عالم اور وہ تھے پہلے سے ہی قائل

یہ دنیا جھوٹی ہے، ڈھونڈتی ہے وسائل
یہ تو لذت ہے اور لذت کے مراحل

پاکیزگی بن گیا لفظ پرانا ساحل
ایک کے بعد دوجی، دوجی کے بعد تیجی

تیجی کے بعد چھوتھی

کیا یہ نہیں ہے نفرت کے لائق؟

شیطان تو تیرا اپنا نفس ہے کاہل
پھر دنیا کو کیوں کوستا ہے نائیل


میں نے یہ نظم چاند رات کو فجر کی نماز کے بعد لکھی تھی. اس دن میرا بہت جی کر رہا تھا کہ کچھ لکھو تو لکھ ڈالی. پھر مجھے ایک دوست نے اس کو اس وقت نہ شیر کرنے کا مشورہ دیا. اب یہ آپ ک سامنے حاضر ہے.  

No comments:

Post a Comment