Saturday 21 November 2015

پہلی سی بات

پہلی سی بات

                                             (SAd vs Nael Era 50th writing)                  



شروع بھی کروں تو
کہاں سے شروع کروں

ختم بھی کروں تو
کہاں پر ختم کروں

راز کو راز ہی رکھوں تو
آخر کب تک رکھوں

اور افشاں بھی کروں تو
کیسے کروں

اسی کشمکش میں
ڈوبا جا رہا ہوں

من ہی من میں
گھوٹتا جا رہا ہوں

دن بدن تنہائی
بڑھتی جا رہی ہے

کچھ کہنے کچھ سننے کی چاہ
بڑھتی جا رہی ہے

وہ سامنے کھڑی تھی
حال دل جان چکی تھی

میری طرف شاید متوجہ تھی
وقت کی کڑی شاید رکی تھی

نجانے کیوں دل سے آواز نکلی
بتا تو یہ آرزو زباں سے کیسے نکلی

نادانی میں بھی
اک آہ نکلی

تو تو درویش تھا
پھر کیسے یہ راہ نکلی

ابھی کے ابھی چھوڑ دے سب
ابھی کے ابھی سینچ لے لب

فقط چہرے پر
ذرا سی مسکان عیاں ہوئی

بات نہ کرنے کی
چاہ نماں ہوئی

شاید کسی کے آنے کی آواز
کانوں پر گراں گزری

بس یونہی ذرا سی سوزش
سینے میں سے ابھری

شاید اسی سوزش سے
ظہر میں اک التجا نکلی

سیدھی راہ دکھانے کی
چاہ ابھری

پھر سوئی وہیں اٹک گئی
ساری بازی وہیں پلٹ گی

اب اداسی ہو بھی تو
کیوں کر ہو

شکوہ ہو بھی تو
کیوں کر ہو

خودی تو رب سے 
نیکی مانگی تھی

مگر آج اتنے سالوں بعد
پھر سے وہی ادا مانگی ہے

سمجھ نہیں آئی
یہ ریت کس نے باندھی ہے

اس کی ڈولی بھی نہ اٹھائی
ہماری جان بھی نہ چھڑائی

اب جو ملن ہو بھی جائے نائیل
اب جو وقت پلٹ بھی جائے شاید

مگر وہ پہلی سی بات
پھر کبھی نہ رہے گی

ساتھ جینے مرنے کی چاہ
پھر کبھی نہ رہی گی

مگر پہلی سی بات
پھر کبھی نہ رہی گی

ساتھ جینے مرنے کی چاہ
پھر کبھی نہ رہی گی


ہنسی مزاق میں شروع ہونے والا سفر آج مجھے بہت آگے تک لے آیا اور مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ کب میں ٥٠ کے ہندسے تک پہنچ گیا اور جب پہنچا تو خود کو روک لیا کہ یہ والی کچھ خاص ہونی چاہیئے مگر جو بھی لکھنے کی کوہشش کی مکمل کر ہی نہی پایا اور پھر آج نجانے کیا سوچ کر یہ لکھ دی اور پھر اس کو ہی پچاسویں بنا دیا. میں آپ کی آراء ابھی جواب نہیں دے پاؤں شاید کیوں ابھی میرے امتحان ہو رہے ہیں مگر امتحانوں کے بعد لازمی جواب دوں گا.

شکریہ!!!!!

Monday 5 October 2015

جواب

جواب
              نائیل






اک ہی سوال تھا
اک ہی جواب تھا

معشوق سے سوال تھا
ناں میں ہی جواب تھا

قصہ تو وہیں تمام تھا
پھر کیوں اتنا اہتمام تھا

دکھ درد کا جو نظام تھا
فضول میں ہی رواں تھا

عشق کا یہی فلسفہ تھا 
عشق کا یہی تقاضا تھا

معشوق کی رضامندی پر
سارا جہاں قربان تھا



نفی میں بھی تو شاد تھا
نَفیءِ حَیات میں کامران تھا

انکار نے سب کچھ بھولا دیا
سارے اسباق کو جھٹلا دیا

رنجھ کو دل میں بسا لیا
غم کا تاج سر سجا لیا

انا سے جب ہاتھ ملا لیا
عرضی کو جینے مرنے کا مسئلہ بنا لیا

ریت رواجوں کو ٹھکرا دیا
گناہ کے رستے کو اپنا لیا



پانے کو تو پا لیا
مگر عشق کو بلی چڑھا دیا

عقیدت کے جذبے کو
ہوس نے عشق خام بنا دیا

 جب تک ہوش آیا
سب کچھ ہی گنوا دیا

کوسنے سے من بہلا لیا
مگر پاپ نے ڈنکا بجا دیا

پھر کیا دن کیا رات
بس مسجد کو ٹھکانہ بنا لیا



رو رو کر فسانہ بنا دیا
معافی کی طلب نے جوگی بنا دیا

معاقب خود کو کہلوا لیا
پھر بھی سجدے میں سر جھکا دیا

ساری زندگی کے لئے
 اک ہی کھٹکا لگتا رہا

جو رب نے معاف نہ کیا 
اگر دوزخ کو ٹھکانا بنا دیا

تو سب کچھ ہی ہار دیا
رسوائی نے گلے لگا دیا

مگر پھر قرآن نے سہارا دے دیا
میرے رب نے خود کو رحمٰن اور رحیم بتلا دیا

مغفرت کا رستہ دکھلا دیا
زخم پر مرہم لگا دیا

بھولے بھٹکوں کو رستہ دکھلا دیا
اپنی عظمت سے یہ نظام حیات چلا دیا




کافی دنوں سے ایک غزل جو لکھی ہوئی ہے اس کو مکمل کرنے کی کوہشش کر رہا تھا مگر کوئی فاقہ نہیں ہو رہا تھا تو آج مینے سوچا کچھ نیا لکھتے ہیں تو بس پھر بغیر کچھ سوچے سمجھے لکھنا شروع کر دیا اور جب اس کا اختتام ہوا تو کچھ ایسی ہی چیز میرے سامنے آگئی اور مجھے ایسے ہی چیزیں لکھنا پسند ہے. امید کرتا ہوں.

اعلان:-

  آپ لوگوں کو بتا کر مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ یہ میری G+ پر ٤٩ کاوش ہے. اب آپ میری بلاگ کھولیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو تو پچاسویں ہے مگر نہیں. ایک نظم مینے لکھی تھی اور پبلش بھی کی تھی بلاگ پر مگر آپ لوگوں کو پڑھائی نہیں تھی. تو سوال اٹھا کہ پھر یہ ٤٩ کیسے ہے تو اس بلاگ میں ٢ blogs ایسی ہیں جو مینے کسی سے لی ہیں اور وہاں بتایا ہوا ہے. اسی لئے میری اگلی کاوش ٥٠ ہو گی اور وہ ہو گی بھی پڑھنے لائق تو اس کا لازمی انتظار کی جئے گا.

شکریہ!!!!

Tuesday 18 August 2015

معصوم سی لڑکی

معصوم سی لڑکی

                              SAd Special





سیدھی سادھی معصوم سی لڑکی

خدا کرے تم سدا مسکراتی رہو


بھولی بھالی نازک سی کلی

خدا کرے تم سدا مہکتی رہو







ہنستی ہنساتی مسکراہٹیں بانٹتی

تم سدا کھلکھلاتی رہو


لہلہاتی گنگناتی تڑیاں لگاتی

تم سدا چہکتی رہو


چڑتی چڑاتی نخرے دکھاتی

تم سدا چلبلاتی رہو


سجتی سنورتی کاجل سورمہ لگاتی

تم سدا سنورتی رہو


ملتی ملاتی سہیلیاں بناتی

تم سدا چاہتیں بانٹی رہو   


عیدی دیتی عیدی مانگتی

تم سدا عید مناتی رہو


روتی دھوتی احساس دلاتی

تم سدا غم طرازتی رہو


چھپتی چھپاتی نظروں سے نظریں چراتی

دعا ہے کہ تم جیسی ہو ہمیشہ ویسی ہی رہو




Diplomatic statement


یار آپ لوگوں کو تو پتا ہی ہے کہ اول تو ہمیں کوئی لڑکی گھاس نہیں ڈالتی اور دوسرا میں تو معصوم سا بندہ ہوں اور ایسی ویسی نظم لکھنے کا قائل بھی نہیں ہوں. یہ ایک تجربہ تھا. چوں کہ میں سیکھنے کے مراحل میں ہوں تو میں نے سوچا اس طرح کی بھی کوئی نظم لکھ لیتے ہیں. اس سے پہلے بھی ایک ایسی ہی نظم لکھی تھی 'پری نما شہزادی' مگر اس کو مکمل نہیں کر سکا. اس لیے اس کو نظم ہی سمجھنا ہے کچھ اور نہیں (کچھ اور سمجھ بھی لیا تو کیا فرق پڑتا ہے)....
wink! wink!

Thursday 16 July 2015

عاشق اور ہم

عاشق اور ہم

                         SAd



لوگ مختلف غم سینے میں چھپاتے ہیں
مگر ہم تو عجب درد دل میں بساتے ہیں

لوگ عشق اور محبت میں چوٹ کھاتے ہیں
مگر ہم تو عجب ہی گل کھلاتے ہیں

لوگوں کو تو محبوب مل جائے
تو ڈنکا سارے شہر میں بجاتے ہیں

نہ ملے تو رو دھو کر دل بہلاتے ہیں 
اپنا دکھڑا ساری دنیا کو بتلاتے ہیں

مگر ہم پر تو کامیابی بھی ناکامی بن کر ٹوٹتی ہے
بہترین نہیں تو پھر طعنوں سے بھی کام چلاتے ہیں


ان کی محبوب کو پانے کی چاہ انہیں جینے نہیں دیتی
مگر ہم تو اپنی محنت کے صلے سے خوش ہوجاتے ہیں


وہ راتوں کو جاگنے کا قصہ ساری دنیا کو بتلاتے ہیں
مگر ہم نیند سے بھڑ کر کتابوں میں سر کھپاتے ہیں 


ان میں تو محبوب سے بات کرنے کی سکت بھی نہیں ہوتی
مگر ہم تو دنیا جہاں کی رنجشوں کو سہتے چلے جاتے ہیں

بیچارے وہ لوگ جب جدائی سے ہاتھ ملاتے ہیں
ہم دنیا فتح کرنے کے خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں


ان لوگوں کو کوئی کمائی شامائی کی فکر نہیں ہوتی
وہ تو بس دل لگی کے ساز گن گناتے ہیں

ہم سے پوچھے بھلا کوئی ڈھیلا جیب میں نہیں
اور اسٹیو جاب کو موبائل چلانا سکھاتے ہیں

ان لوگوں کی سوچ تو بہت محدود ہوتی ہے
مگر ہم شہزادے تو ہر فن مولا کہلاتے ہیں

شکر کرو ان لوگوں کی کوئی ادارہ باز پرس نہیں کرتا
ہم سے پوچھو یہ یونیورسٹی والے کیسے ظلم ڈھاتے ہیں

ان کو تو دنیا والے ہیر، رانجھا، اور مجنو کے خطاب نوازتے ہیں
مگر ہمیں نکمے، کم چور اور ہڈحرام کی اصطلاح میں لاتے ہیں

وہ لوگ تو پھر بھی سچے عاشق کہلاتے ہیں
مگر ہم کیا بتائیں؟؟ ہم تو طالبعلم کہلاتے ہیں




کچھ چیزوں کو اپنے سر لینے سے خوشی ہوتی ہے مگر اس کو میں اپنے سر نہیں لینا چاہتا. مجھے ڈر ہے کہ لوگ اس کا غلط مطلب لینگے اور میری پرانی نظموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھیں گے کہ میں تعلیم کہ خلاف ہوں. نہیں ہرگز نہیں بلکہ میں تو تعلیم کا بہت بڑا حامی ہوں. تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے تو میں کیسے غلط بات کہہ سکتا ہوں. میں تو اصل میں اس تعلیمی نظام کے خلاف ہوں اور اس کے ہی خلاف لکھتا ہوں اور اس میں جو کمیاں ہیں وہ بیان کرتا ہوں. میں شاید اگر زندگی رہی تو اپنی نظم میں یا کسی مضمون میں اپنا تعلیمی ماڈل پیش کروں جس میں آپ لوگوں کے سب ابہام دور ہو جاینگے.

اگر اس نظم میں کوئی غلطی کوتاہی نظر آئے تو نشاندہی کر دی جئے گا.

شکریہ !!!!

Sunday 5 July 2015

ہتھیلی

ہتھیلی

                        SAd





بیٹھے بیٹھے پڑ ہی گئی نظر ہتھیلی پر
دیکھتے دیکھتے ٹک ہی گئی نظر ہتھیلی پر

خالی خالی سی تھی اپنی زندگی پر
اسی ریل پیل میں ڈھیلا بھی نہ ہتھیلی پر

ہنسی چھوٹ رہی تھی اپنی مفلسی پر
کر بھی کیا سکتے تھے اپنی بےبسی پر

ایسا کوئی خاص قصوربھی نہیں تھا پر
 کمانے کا کوئی ذمہ بھی نہیں تھا ہم پر

لگا دیا تھا ہمیں تو پڑھائی کی دگڑھ پر
فقط نان و نفقہ کا سارا ذمہ تھا ہمارے والدین پر

ہٹا کٹا، عاقل بالغ، سب کچھ تو تھا پر
فقط کچھ بھی تو نہیں تھا ہتھیلی پر

کہتے تھے کہ یہی ریت رواج ہیں ان راہوں پر
کون سمجھاتا کہ یہ تو سراسر ظلم ہے جوانوں پر

آخر کب سے پلو سے باندھ کر رکھا ہے ہم سب کو پر
وقت کا پیمانہ مخصوص ہے نہیں روکتا کسی جگہ پر

ساری محنت لگا دیتے ہے ان کتابوں پر
مگر کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہتھیلی پر



گزر جاتی ہےہماری آدھی زندگی پر
کوئی سرے سے بوجھ نہیں ہوتا ہم پر

پستا رہ جاتا اکیلا کمانے والا اسی آس پر
ایک دن تو ملے گا سکون اسی روش پر

رہ جاتا ہے پھر شاہین زمانے کے رحم و کرم پر
پر تو کاٹ دیتے ہیں لگاتا ہے امید پھر سے اگنے پر

کچھ اسی کو زندگی کہہ کر چل پڑتے ہیں اس راہ پر
جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی کسی بھی موڑ پر

اور پھر کچھ مجبور ہوجاتے ہیں ایسے کاموں پر
کرتا رہتا ہے ملامت ضمیر ساری زندگی جن پر

رہ گئی عشق معشوقی وہ تو چھوڑ دی ہے افسانوں پر
جو دکھتی ہے اس کا دار و مدار ہے نفسانی خواہشوں پر

آخر سب الزام کیوں ڈالتے رہتے ہیں زمانے پر
کرتوت تو ہمارے ہیں تو کیسا صلا آزمانے پر

بڑھو! چلو بڑھو! کرو! کچھ تو کرو اس ضمن پر
کہیں یہ نہ ہو پھر سب تکتے ہی رہ جایئں ہتھیلی پر

Sunday 14 June 2015

محسوس کریں

محسوس کریں
                            نائیل 


آؤ ہم تم محسوس کریں
دل کی باتیں خوب کریں

زندگی کے دکھ درد دور کریں
اک دوجے کو ذرا قریب کریں

غموں سے ذرا اجتناب کریں
چاہت سے بیاباں سہراب کریں

انسانوں کی بستی میں کوچ کریں
رنگ ونسب کی ازسرنو کھوج کریں

ریت رواجوں سے پرہیز کریں
چین کی چاہ میں نئی راہ تلاش کریں



خودی کو بے خودی سے محفوظ کریں
رب کے تسبیح سے خود کو محظوظ کریں

پھر فلک پر اپنی نظر مرکوز کریں
بادلوں کی مستی سے چاندنی کو محفوظ کریں

تنہائی میں سب کچھ بھول جایا کریں
بس اک تم کو یاد رکھا کریں

سنیں! آپ ہمیں ایسے ٹوکا نہ کریں
ہماری حالت کو بھی سمجھا کریں

ہماری دل کی دھڑکن کو سنا کریں
یوں ہم سے منہ تو نہ موڑا کریں

ساتھ مانگنے کی جو بات کریں
پھر اس پر قائم بھی تو رہا کریں

آخر ہم کتنے گلے شکوے کیا کریں
آپ خود بھی تو کچھ سمجھا کریں




مجھے نہیں کیا ہورہا ہے. پتا نہیں کیوں میں اپنی اچھی عادتوں سے دور بھاگ رہا ہوں. ان اچھی عادتوں میں سے ایک اچھی عادت لکھنا بھی ہے مگر میں لکھنا چھوڑتا جا رہا ہوں. مگر میرے نہ لکھنے سے میرا نقصان کم اور دوسروں کا نقصان زیادہ ہوتا ہے. اور میں جس مقام تک چلا گیا اس کے بعد تو میرا نہ لکھنا کسی زیادتی سے  ہے. میں کوہشش کروں گا کہ میں واپس آؤں اور پھر سے وہیں سے شروع کروں جہاں تھا.

Saturday 23 May 2015

Revival Of International Cricket In Pakistan

Revival Of International Cricket In Pakistan




Its going to be a shock to hear from me at this time of the year. Some of you might say !!! you said that you are going offline (because of your papers) but you are still online. But let me tell you something, How could I miss this moment? How could I be not part of this huge moment?? How could I let it go and not be a part of it???

Finally,  is back in Pakistan after six years. Zimbabwe's Cricket team is visiting #Pakistan and announcing to the whole world that Pakistan is a safe and secure country to play cricket unlike the media perception. Pak vs Zim's first T20 match was, in fact, the first cricket match i.e played in Pakistan after 6 years. Its kind of like Eid for  and a Grand festival for the whole Pakistani nation. Finally, the cricket is back in Pakistan, finally we got a chance to see international cricketers playing, we can take their autographs and have some friendly chat with them.Some of them are going to be our role models. Pakistan'a cricket team is playing in home conditions after a really long time and I could fairly say that finally, players like  , #Ahmed_Shehzad ,  and  got a chance to perform in front of their own crowd, first time in their lives. Its more like a dream come true. Finally, we got a chance to show the world that we are not so called terrorist but peace loving people

The first T20 match was scheduled to begin at 7pm local time. Zimbabwe won the toss and elected to bat first. Anwar ali had the ball in his hand and Masakadza was ready to face the first ball of the match. The Jam Packed #Gaddafi_Stadium Lahore (which was hosting its first ever T20 match) was really on fire. People in the stadium were going crazy, jumping and hoofing up and down, cheering every run, singing, dancing, shouting, chanting and alarming to the whole world that no matter what happens, we will come to watch cricket, we will come in large number to support the cricket and the Pakistani team. Probably that was the reason why that the whole stadium was filled with colors of life. Anawar Ali marked his run up and ran in to bowl with full force and and set tone for the revival of International cricket in Pakistan. Zimbabwe opener provided a good start to the innings and crossed the 50 runs mark in just 6 overs .Muhammad Sami took 2 wickets in 2 balls to restrict Zim to 58 for 2 after the end of the 7th over. After that the Zimbabwe kept losing wickets in the pursuit of quick runs and in the end they ended up with the score of 172 in 20 overs with 6 wickets down. Zimbabwean Captain top scored with 54 off just 35 balls. In the break some big names of the Pakistan music industry performed on the stage to keep the crowd on their toes. Pakistani openers started their inning extravagantly. Mukhtar Ali who was playing just his second game tore zim bowlers apart and he was well supported by the his partner Ahmed Shehzad and they both took the score to 142 until Ahmed shehzad lost his cool and thrown his wicket away to Sean Williams. He scored 55 off 39 balls and Mukhtar scored 83 off 45 balls. After them classic Pakistan collapsed start until Shahid Khan Afridi came on to the crease with just 4 needed of 4 balls. He hit the first ball he faced right above the bowlers head to the boundary and won the game for Pakistan.


Well! it was not just a game for Pakistan. It was a matter of life or dead for us. In fact, the game gave a strong message to whole cricketing world that Pakistan, as a nation, is not dead yet. We the, Pakistani's, were sidelined, were called Gamblers, Wagers, Fixers, Hypocrites and Terrorists. We were victimized and differentiated. No one was ready to come to Pakistan and the international media was playing a key role in destroying the image of our homeland. Whenever I used to chat with new people on the internet, I was treated like a terrorist or a psychic. In fact, this game was a big statement to all those false perceptions. Pakistan is not a terrorist state but a peace loving country who has its own boundaries and one of the most lethal armies in the world. We have our own culture, our own traditions, our own believes and most important of all, we value them. We respect our elders and treat our children with love and care. We were not terrorist at all but Terrorism was imposed on us by invaders. But now we have come a long away from that, its the time to move one and make a strong comeback. Its no use to cry over split milk, so we have to keep moving forward and focus on our goals. We have to make sure that we are no more treated like we've been in the past. We have to let our enemies know that whatever you'll throw at us will be worthless we are going to have an answer for every move you would make because we are a strong nation and no matter how much the time it will take, in the end, we are going to stand tall. We have to identify and eradicate corrupt and ill-hearted people from our ranks and then never look back. 


I wanted to say alot of more things, I wanted to express my feelings but its not the right time. Its the time for the celebration, So lets celebrate it.


I want to thank from the bottom of my heart and from all Pakistani nation to Zimbabwe cricket team and Zimbabwe cricket association for taking a stand against their board and help the PCB to revive cricket in Pakistan.


And in the end I want to say thanks to you guys for reading this artice. If you find Any mistakes please do let me know.

                

Sunday 12 April 2015

میں کیوں

میں کیوں

SAd                                    



میں کیوں خود ہی شکست مان رہا ہوں
میں کیوں جیت کی پیاس بجھا رہا ہوں

میں کیوں بس یونہی جیتا جا رہا ہوں
میں کیوں اب جینے سے کترا رہا ہوں

میں کیوں مصلحتوں میں الجھتا جا رہا ہوں
سچ جان کر بھی جھوٹ بتلا رہا ہوں

میں کیوں اتنا درد سینے میں چھپا رہا ہوں
دل کے رستوں پر پہرے بیٹھا رہا ہوں

میں کیوں آسماں تجھ سے نظریں ملا رہا ہوں
اور پھر زمین میں خود ہی دھنستا جا رہا ہوں

میں کیوں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں
بس انا کی خاطر چینختا چلا جا رہا ہوں 

میں کیوں دلاسوں پر دلاسے دیے جا رہا ہوں
شاید رات گزارنے کی سازش بنا رہا ہوں

میں کیوں اب خود سے نظریں چرا رہا ہوں
شاید ایک نہ ایک دن پکڑ میں جو آرہا ہوں


میں کیوں بوسیدہ سوچوں میں ڈوبی جا رہا ہوں
لگن کے بدلے سستی گلے سے لگا رہا ہوں

میں کیوں اپنے ہونے کا جتن جتا رہا ہوں
زندگی میں تو تجھے نکچڑی بنا رہا ہوں

میں کیوں سچائی سے منہ چھپا رہا ہوں
فانی دنیا کی خاطر آخرت گنوا رہا ہوں

میں کیوں اپنے گناہوں پر پردہ ڈال رہا ہوں
شاید خود ہی خود کو بے وقوف بنا رہا ہوں


میں کیوں بس یونہی لکھتا جا رہا ہوں
شاید کاغذ قلم کی قیمت چکا رہا ہوں




کبھی کبھار آپ کی زندگی میں وقت ایسا آتا ہے کہ آپ کی زندگی بہت سے کیوں کے گرد گھومنا شروع ہوجاتی ہے. ہم جتنی جلدی اس کیوں کیا جواب تلاش کریں گے ہمارے لئے اتنا ہی اچھا ہے ورنہ یہ کیوں بڑھ کر ایک سانپ کی طرح ہمیں نغل جائے گا.

Tuesday 10 March 2015

عکس

عکس
                     نائیل 




جب بھی اسے ڈھونڈا
میں ڈھونڈتا ہی رہ گیا

جب بھی اسے مانگا 
میں مانگتا ہی رہ گیا

جب بھی اسکا نام لیا
میں رشک کرتا ہی رہ گیا


جب بھی اسکا خواب دکھا
میں تعبیر پوچھتا ہی رہ گیا

جب بھی اسکی دہلیز سے گزرا
میں بس دروازہ تکتا ہی رہ گیا

جب بھی اسکا حال پوچھا 
میں شکر ادا کرتا ہی رہ گیا

جب بھی اس کا خیال آیا
 میں اسی خیال میں کھویا رہ گیا 

جب بھی اسکو سمجھنا چاہا
میں اسی میں الجھا رہ گیا

جب بھی اسکے بنا جینا چاہا
میں تنہا جیتا ہی رہ گیا

جب بھی اسکو بھولنا چاہا
میں خود سے شرمندہ ہوتا ہی رہ گیا

جب بھی اسکا قصّہ مکمل کرنا چاہا
اس کے عکس کو تلاش کرتا ہی رہ گیا

Tuesday 24 February 2015

انقلابی

انقلابی

                   (SAd Special) 




سن او انقلابی
یوں تو انقلاب نہیں لاتے انقلابی
یوں تو جنوں کا ضیاع نہیں کرتے انقلابی
ظلم و ستم سے ستائے ہوتے ہیں انقلابی
مصیبتوں اور لغزشوں سے نہیں گھبراتے انقلابی
اک پختہ عزم کے تحت ہی نکلتے ہیں انقلابی
بھوک اور پیاس سے نہیں گھبراتے انقلابی
خود دنیا جہاں کی مشکلیں جھیل کر
دوسروں کو راحت پہنچاتے ہیں انقلابی
مرنے مارنے سے کبھی نہیں کتراتے انقلابی
چوٹ کھا کر شکوہ شکایت نہیں کرتے انقلابی
اپنے زخموں کو دیکھ کر حوصلے بڑھاتے ہیں انقلابی
رکاوٹیں تو دور کی بات ہے
 کبھی گولیوں سے بھی نہیں شرماتے انقلابی
شیر کی طرح  لڑتے ہیں انقلابی
عورتوں اور بچوں کو ڈھال نہیں بناتے انقلابی
دکھا کر سینہ چڑھ دوڑھتے ہیں انقلابی
اسی لئے تو نت نئی سازشیں نہیں بناتے انقلابی
اک فیصلے پر ڈت جاتے ہیں انقلابی
دھن سے زیادہ من کی سنتے ہیں انقلابی
پھر کسی کی کال پر بپھرتے نہیں ہیں انقلابی
عوام کی امنگوں کا عکس ہوتے ہیں انقلابی
ہر دکھ درد میں ساتھ نبھاتے ہیں انقلابی
راتوں کو چھپ کر گھر کو بھاگ نہیں جاتے انقلابی
آخر حقوق کی خاطر ہی تو سڑکوں پر نکلتے ہیں انقلابی

غلامی کی زندگی سے نجات دلاتے ہیں انقلابی
 اور یہ عوام بھی بڑی ظالم ہے او انقلابی
بیٹھا کر سروں پر خود بناتی ہے انقلابی
پھر جرنیل تو کیا آمر سے بھی معافی منگواتے ہیں انقلابی
بس لوگوں کے گھروں میں آگ نہیں لگاتے انقلابی
لوگوں کی پگھڑھیاں نہیں اچھالتے انقلابی
جھوٹے الزاموں سے نہیں ڈراتے دھمکاتے انقلابی
کوئی ساتھ دے تو ٹھیک، نہ دے تو بھی نہیں کوستے انقلابی
مدد کے لئے کسی امپائر کا سہارا نہیں لیتے انقلابی
ہاں کوئی خودی آجائے تو گلے سے لگاتے ہیں انقلابی
اپنے سارے دکھڑے تب ہی سناتے ہیں انقلابی
انصاف کی امید رب سے ہی لگاتے ہیں انقلابی
پھر اسی کی مدد سے ہی ملتی ہے کامیابی
پھر اس کے بعد ہی تو بنتا ہے اصل انقلابی



میری یہ آزاد نظم تقریباً ٢٨ اگست ٢٠١٤ کو مکمل ہو گئی تھی مگر حالات  نزاکت کی وجہ سے اس کو آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکا. میرے خیال سے ہمیں کبھی کبھار مشکل حالات میں صبروتحمل سے کام لینا پڑتا ہے اور ہمارایک غلط قدم ،الک اور قوم کے لئے وبال جان بن سکتا ہے. شاید اسی حکمت کے تحت آج تک یہ آپ کو پیش نہیں کی. خیر آپ اس کو ضرور پڑھیے گا اور اپنی آرا سے مجھے ضرور آگاہ کی کیجئے گا. اور ہاں اردو ادب کی فکر ذرا کم کیجئے گا، کیوں کہ آپ جو سوچ رہے ہوں گے وہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور اس میں میرا اور آپ کا قصور نہیں ہے.
                              شکریہ!!!!