Saturday 21 November 2015

پہلی سی بات

پہلی سی بات

                                             (SAd vs Nael Era 50th writing)                  



شروع بھی کروں تو
کہاں سے شروع کروں

ختم بھی کروں تو
کہاں پر ختم کروں

راز کو راز ہی رکھوں تو
آخر کب تک رکھوں

اور افشاں بھی کروں تو
کیسے کروں

اسی کشمکش میں
ڈوبا جا رہا ہوں

من ہی من میں
گھوٹتا جا رہا ہوں

دن بدن تنہائی
بڑھتی جا رہی ہے

کچھ کہنے کچھ سننے کی چاہ
بڑھتی جا رہی ہے

وہ سامنے کھڑی تھی
حال دل جان چکی تھی

میری طرف شاید متوجہ تھی
وقت کی کڑی شاید رکی تھی

نجانے کیوں دل سے آواز نکلی
بتا تو یہ آرزو زباں سے کیسے نکلی

نادانی میں بھی
اک آہ نکلی

تو تو درویش تھا
پھر کیسے یہ راہ نکلی

ابھی کے ابھی چھوڑ دے سب
ابھی کے ابھی سینچ لے لب

فقط چہرے پر
ذرا سی مسکان عیاں ہوئی

بات نہ کرنے کی
چاہ نماں ہوئی

شاید کسی کے آنے کی آواز
کانوں پر گراں گزری

بس یونہی ذرا سی سوزش
سینے میں سے ابھری

شاید اسی سوزش سے
ظہر میں اک التجا نکلی

سیدھی راہ دکھانے کی
چاہ ابھری

پھر سوئی وہیں اٹک گئی
ساری بازی وہیں پلٹ گی

اب اداسی ہو بھی تو
کیوں کر ہو

شکوہ ہو بھی تو
کیوں کر ہو

خودی تو رب سے 
نیکی مانگی تھی

مگر آج اتنے سالوں بعد
پھر سے وہی ادا مانگی ہے

سمجھ نہیں آئی
یہ ریت کس نے باندھی ہے

اس کی ڈولی بھی نہ اٹھائی
ہماری جان بھی نہ چھڑائی

اب جو ملن ہو بھی جائے نائیل
اب جو وقت پلٹ بھی جائے شاید

مگر وہ پہلی سی بات
پھر کبھی نہ رہے گی

ساتھ جینے مرنے کی چاہ
پھر کبھی نہ رہی گی

مگر پہلی سی بات
پھر کبھی نہ رہی گی

ساتھ جینے مرنے کی چاہ
پھر کبھی نہ رہی گی


ہنسی مزاق میں شروع ہونے والا سفر آج مجھے بہت آگے تک لے آیا اور مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ کب میں ٥٠ کے ہندسے تک پہنچ گیا اور جب پہنچا تو خود کو روک لیا کہ یہ والی کچھ خاص ہونی چاہیئے مگر جو بھی لکھنے کی کوہشش کی مکمل کر ہی نہی پایا اور پھر آج نجانے کیا سوچ کر یہ لکھ دی اور پھر اس کو ہی پچاسویں بنا دیا. میں آپ کی آراء ابھی جواب نہیں دے پاؤں شاید کیوں ابھی میرے امتحان ہو رہے ہیں مگر امتحانوں کے بعد لازمی جواب دوں گا.

شکریہ!!!!!