Sunday 28 September 2014

پچھتاوا

پچھتاوا 

                   نائیل



زندگی نے بھی عجب ظلم ڈھائے  
ہمیں خود ہی سب غم دکھائے

ہم نے تو بس اک خوشی کی تمنا کی تھی 
نجانے اس نے کیوں اتنے پڑکھچے اڑائے


کیا ظلم کیا تھا ہم نے دل لگا کر
آخر کیوں بے وفائی کے بادل چھائے 

کونویں میں تو گر ہی گئے تھے شاید
اسی لئے ادھر ادھر کے اتنے چکر لگائے

 پھنس کر رہ گئے تھے ہم تو بیچ میں
نہ تمھیں چھوڑ سکے اور نہ ہی چھوڑ پائے  



تم تھی سماج کی دیواروں میں قید تھی شاید 
پر تم کو تو کیا ہم خود کو بھی نہ چھڑا پائے  

لگا کھونے سے جیت جائیں باقی تو کیا ہے غم 
آخر چھوڑ کر تم کو پھر بھی نہ جیت پائے 

جانتے ہیں کہ چھوڑا تو تم نے ہی تھا
مگر آج پھر ہم خود ہی قصور وار کہلا ئے 

تو کیوں بیتے لمحوں کو یاد کرتا ہے نائیل 
آخر کیوں کر تو ایسے ہی اپنا دل جلائے

No comments:

Post a Comment