Saturday 27 April 2019

من چلی

من چلی
                            SAd 



آج پھر جب نظر لڑی
تو پھر یاد آئی وہ گھڑی
جب تم سامنے تھی کھڑی
پہلی بار نظر تھی ملی
تھمی تھی وقت کی لڑی
آنکھ سے آنکھ تھی ملی
مدھم تھی سانسیں، دھوپ تھی کڑی
ہائے رے بے بسی، جب تم تھی چلی
میری سانس تھی رکی
اک آس جو تھی بندھی
سوچا نہ تھا کبھی، کہ عشق ہوگا کبھی
جو عشق ہوا تو  بچھڑنا بھی ہے کبھی
آخر اعتبار ہی کیوں کیا کسی پر کبھی
بیوفا کو بیوفائی کی عادت تھی جو پڑی
ہم تنہا رہ گئے، شاموں میں بیاباں بھی سہ گئے
پھر بھی نہ چاہ کر ہمیشہ قدر کی نگاہ ہی تھی اٹھی
پوچھا کسی نے کون تھی کیسی تھی وہ من چلی
آواز آئی پریوں جیسی، باد صبا، معصوم سی کلی