Thursday 28 August 2014

امتحانوں کے دن

امتحانوں کے دن 

                        نائیل 






چلو آج پھر سے خوشیاں منائیں
دل کا دل سے میل ملائیں

ایک بار پھر سے وہ زمانہ جیئیں
کچھ یاد کریں اور کچھ یاد کرائیں

وہ امتحانوں کے دن تھے شاید
مصیبتوں کے دن تھے زائد

تیاری تو برائے نام ہی تھی
 زندگی بھی کسی کام کی نہ تھی


ہم کچھ عجیب تھے نقل کرنا تو ٹھیک
مگر پکڑے جانے کو اک جرم مانتے تھے

اتنا معلوم تھا کے بن ثبوت کے استاد بھی کچھ نہ تھا
اسی لئے بوٹی تو کیا اس کا نام-و-نشان نہ تھا

گزرا تھا پہلا پرچہ بہت ہی بھاری
دوسرے کا تو سرے سے سوال نہ تھا

دے کر پرچہ کی تھوڑی مستی
چونکہ لوٹنا سرعام نہ تھا

پھر پہنچے اسی جگہ جہاں کوئی کام نہ تھا
 میرا اور میرے رقیب کا کوئی گمان نہ تھا

ہمیشہ کی طرح ہانکنے لگے گپیں، کرنے لگے چرچے
گزرتے لمحوں کا ذرا بھی حساب نہ تھا


نجانے وہ کیسی آہٹ تھی
شاید ساری زندگی کی چاہت تھی

بےاختیار چل پڑا کہہ  کر خدا حافظ 
 ملنے ملانے کا وقت اب کام نہ تھا 

چل جو پڑے تھے اس کے دیدار کی خاطر
چونکہ چوکھٹ سے اس کی کچھ عیاں نہ تھا



قسمت کچھ ایسی چمکی جس کا حساب نہ تھا
دیکھ کر اس کو پھر سے سر اٹھا نہ تھا

آخرپھر وہی غصّہ کر گیا گھائل 
پھرکیوں نہ دیتا دل تو نائیل 

خوشیوں سے بھرے تھے باقی سب پل
پھر پیپروں سے بھی کوئی گلا روا نہ تھا


پھر خوب محنت کرنے لگے تھے ہم
منصوبہ جو کھونے کا جواں نہ تھا 

No comments:

Post a Comment