Thursday 18 December 2014

امید

امید

SAd                   




اداس دلوں میں ایک بار پھر سے جان بھر دی
میرے ملک کے بڑوں نے کچھ دوا جو کر دی

درندوں کی ٹھا ٹھا نے عجب رغبت پیدا کر دی
دشمن دھڑوں میں بھی یکجہتی کی فضا پیدا کر دی

ماتم بچھا ہے پھولوں کے شہر میں گلی گلی
مگر ایک ملاقات نے کچھ سوزش کم کر دی

لڑتے، جھگڑتے، انسانوں کی بلی چڑھاتے وحشی
امن پسند لوگوں پر تونے یہ کیسی دہشت پیدا کر دی

ہے پوری قوم رنجیدہ، ماؤں کے کلیجے چھلنی
او ظالم! یہ تو نے  کیسی یہ قیامت بھرپا کر دی

جن ہاتھوں میں ہوتی تھی کاپیاں کتابیں کل تک
ان ہاتھوں میں دوستوں کی لاشیں ہی رکھ دیں

تجھ کو برا بھی کہوں تو کن الفاظ میں کہوں ظالم
تو نے تو بربریت کی  تمام حدیں بھی ترک کر دیں

ڈوبتی نییہ میں پھر سے اک نئی امنگ پیدا کر دی
حکمرانوں نے آج اپنی انا ایک طرف جو رکھ دی 

لوگ کہیں گے جھلے دلاسوں نے تیری آنکھ بند کر دی
 مگر اک فیصلے نے دل کی ساری رنجش دفع جو کر دی

اکٹھے ہونے کا وقت آگیا ہے میرے ہم وطنوں
شکاری نے آج خون سے ندیاں جو تر کر دیں

غم تو بہت بڑا ہے، فقط درد تو بہت سہا ہے
 مگر اک امید نے تھوڑی سی عیادت کر دی

جینے کو تو پوری عمر پڑی تھی
آخر زندگی ہی نے ہی نہ کر دی

مانگوں بھی تو بھلا اب مغفرت کیسے مانگوں
میرے رب نے بچوں کی مغفرت ویسے ہی کر دی


پشاور سانحے کے بارے میں میں کیا کہ سکتا ہوں. کیا لکھ سکتا ہوں، میرے پاسس تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ میں اس واقعہ کا ذکر بھی کروں. اب جو یہ ہو چکا ہے تو ہمیں جگ جانا چاہیے وار اس چیز کو ممکن بنانا چاہیے ک یہ آخری دفعہ ہے. ایسا واقعہ نہ پھر کبھی ہو گا اور نہ کبھی ہونے دیں گے. اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے والوں سے ایک ایک چیز کا حساب لینے کا وقت آگیا ہے. اگر پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنا ہے اور اگے بڑھنا ہے تو ان درندوں کا جڑ خاتمہ سے خاتمہ کرنا ہو گا. بس بہت کوتاہی ہو گی، بہت نظریں چرا لی بس اب تو اینٹ کا جواب پتھر سے ہی ہوگا. اور یہ پتھر آخری پتھر ہی ہوگا....

No comments:

Post a Comment