Thursday 29 December 2016

احساس

احساس
                     نائیل




سوکھے پتے اور پتجھڑ کا موسم
دونوں ذرا نہیں بھاتے
کمبحت!
تیرے ہونے نہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں

Friday 2 December 2016

آمد

آمد
                     نائیل

آج کل تو چاند بھی سج رہا ہے
لگتا ہے ربیع الاول اسے بھی جچ رہا ہے

نبی کی آمد تھی ہی اک کرشمہ
کہ سارا جہاں آج تلک رج رہا ہے




حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات،  ان کی زندگی، ان کا اخلاق اور ان کا کردار ساری مخلوق کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے. آپ کی سنت پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے.

Monday 21 November 2016

سب ویران ہے

سب ویران ہے
                                          SAd





یہ محفلیں بھی ویران ہیں
یہ چاہتیں بھی ویران ہیں

یہ مستیاں، یہ شوخیاں
یہ لذتیں، یہ سرگوشیاں

یہ راحتیں، یہ حماقتیں
یہ آرائیشیں، یہ نوازشیں 

یہ شوخ چنچل آسائشیں
یہ مخملی زیبائشیں

سب ویران ہے


سب ویران ہے

یہ طنز و مزاح کی مجلسیں
یہ ناز نخرے کی رنجشیں

یہ گھر گھرستی کی لغزشیں
یہ روز روز کی جنبشیں

یہ سترنگی سی شنائیاں
یہ یہ بدرنگی سی رہائیاں

سب ویران ہے


سب ویران ہے

یہ دیکھا دیکھی کی بناوٹیں
یہ روز مرہ کی سجاوٹیں

یہ حسیں حسیں رفاقتیں
یہ دل کش دل نشیں ستائیشیں

یہ خود غرضی کی تنہائیاں
یہ  من مرضی کی دہائیاں

سب ویران ہے


سب ویران ہے

یہ دل بھی ویران ہے
یہ جاں بھی ویران ہے

یہ عشق بھی ویران ہے
 یہ سمت بھی ویران ہے

جب یہ دنیا ہی ویران ہے
تو اس کی ہر شہ بھی ویران ہے



سب ویران ہے

سب ویران ہے

چاہے ہوں پھر سونے چاندی کی بالیاں
یاں پھر شان و شوکت کی جالیاں

چاہے ہوں پھر جھوٹ موٹ کی تالیاں
یاں پھر لوٹ کھسوٹ کی ساڑھیاں

چاہے ہوں پھر لمبی لمبی گاڑیاں
یاں پھر چمکتی دھمکتی قوالیاں 

سب ویران ہے


سب ویران ہے

مجھے اس نظم کو مکمل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی اسی لئے اگر آپ میں سے کوئی اس میں کچھ تجویز کرنا چاہے تو 


خوش آمدید!

Saturday 12 November 2016

لو لگا بیٹھی تھی

 لو لگا بیٹھی تھی
                              SAd


شدت غم میں نڈھال بیٹھی تھی
جوانی اپنی گزار بیٹھی تھی

 ساری عمر نوک جھوک  کرتی
زندگی ٹصل میں اجاڑ بیٹھی تھی

مگر کل رات سجدے میں گرتے ہی
سایہ سائیں کا مانگ بیٹھی تھی

ہر وقت کوسنا فطرت تھی جسکی
آج ناک رگھڑھتی منت سماجت کربیٹھی تھی

سائیں کی خاطر جھولی پھیلائے
 بیش بہا آنسو بہا بیٹھی تھی

بستر مرگ پر لیٹا جچتا نہیں تھا اسکو
نجانے کتنے جوڑے پہنا بیٹھی تھی

دن رات خدمت کرتی اب تھکتی نہ تھی
نجانے کتنی کوتاہی پہلے دکھا بیٹھی تھی

بال بچوں اور رشتہ داروں پر بڑا برا ناز تھا
آج ان سب کو بھی آزما بیٹھی تھی

ساتھ سائیں کا، سایہ سائیں کا کیا چیز ہے
تلخ حقیقت دیر سے سہی مگر جان بیٹھی تھی

سردی، گرمی، دھوپ، چھاؤں، پتجھڑ، ساون
گر سارے موسم یکسر گزار بیٹھی تھی

خیر دن گزرتے گئے، شامیں ڈھلتی گئیں
ساتھ سائیں کا چھوٹ گیا، راز تنہائی کا ٹوٹ گیا

بچ گیا تو اک خالی کمرہ
وہ بھی ٹوٹا پھوٹا

اپنی حالت زار دیکھ کر
اپنی ذات کو ہی گنوا بیٹھی تھی

سونا سونا آہستہ آہستہ وقت جو گزرا
تنہا جینا خود کو سکھا بیٹھی تھی

کل تک جو نماز تک بھی نہ پڑھتی تھی
آج وقت سے پہلے ہی مسلہ بچھا بیٹھی تھی

تسبیح ہاتھوں میں پکڑے بس اب الله الله کرتی تھی
دیر سے سہی مگر رب سے لو لگا بیٹھی تھی



بہت عرصے بعد کوئی نظم لکھتے ہوئے مجھے اتنا لطف آیا ہے. امید کرتا ہوں آپ کو بھی پسند آئے گی.
شکریہ !!!

ا 

Sunday 6 November 2016

آشنا

آشنا
                                        نائیل



جیون سے بیزار ہم کبھی نہ تھے
درد عشق میں مبتلا ہم کبھی نہ تھے

چین سے سونا فطرت تھی ہماری
فقط بے چینی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے

سیدھی سادھی سادہ سی زندگی تھی ہماری
ارادے بلند اور نازک سی ادا تھی ہماری

نہ کچھ خاص پانے کی چاہ تھی
نہ کچھ انمول کھونے کا خواہش تھا ہماری

من موجی سے ہی تھے ہم
ہمیشہ اپنی ہی دھن میں مگن

بلکل ایسے جیسے تازگئ  حسن
شوخ چنچل رہبر سخن

گر پھر تم زندگی میں آئے
سنگ باد سبا کا پیام لائے

ناز و نکھروں سے پلے
زمانے بھر کے رنگ مانگ لائے

آئے تو کسی تیز گھٹا کی مانند آئے
ایسے جیسے چند بوندیں ادھار لائے

کالے بادلوں کی طرح
صحرا میں امید طوفاں لائے

مگر بوقت ضرورت برسنا بھول آئے
پھر بھی بے وفا ہم ہی کہلائے

سنو! اگر سن سکو تو
تم سے ملنا قسمت تھی

تم کو چاہنا ضرورت تھی ہماری
تم سے مل کر بکھرنا عادت تھی ہماری

مگر تم سے بچھڑنا تباہی تھی ہماری
پھر بچھڑ کر سمٹنا مجبوری تھی ہماری

مگر بیوفائی کرنا
نہیں نہیں ہرگز نہیں

بے وفائی کرنا کبھی نہیں تھی عادت ہماری
کیوں کہ بیوفائی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے

Sunday 9 October 2016

پچھتانا

پچھتانا

            SAd




کتنے نرالے ہیں یہ زمیں والے بھی
جھونپڑوں میں رہ کر آسماں گرانے کی بات کرتے ہیں
بلا عذر دل دکھانے کی بات کرتے ہیں
بلا مقصد آگ لگانے کی بات کرتے ہیں
زمین میں ایسے دندناتے ہیں
جیسے ان کے باپ کی جاگیر ہو
اور کوئی راہگیر ایسے
جیسے ان کی جاگیر میں کمی کمیں ہو
مگر کمی کمیں کی بھی زندگی ہے
اس کی بھی کوئی عزت ہے
مگر ہم تو بے حس لوگ ہیں
بلکل جذبات احساسات سے عاری لوگ ہیں
خیر زندگی کا تو بس اتنا ہی فسانہ ہے
خالی ہاتھ آنا اور خالی ہاتھ جانا ہے
یہ رعب یہ دبدبہ کس کام آنا ہے
بس گناہ گار ہی خود کو کہلوانا ہے 
منکر نکیر نے جب قبر میں آنا ہے
چھوٹا سا سوال نامہ دوہرانا ہے
جواب صحیح ہوا یا غلط
بہت لبا عرصہ قبر میں بتانا ہے
خدا خیر کرے تو کرے
نہیں تو پچھتانا ہی پچھتانا ہے

Saturday 24 September 2016

مقابلہ

مقابلہ

                     نائیل





جب تو ایک تھی
تو لاکھوں میں ایک تھی
مگر اب چاہے ہزار ہوں
تجھ ایک کا مقابلہ نہیں کر سکتیں

Saturday 17 September 2016

تمنا

تمنا

                   SAd


تمنا تمنا ہی رہ گئی
آرزو ندیہ میں بہ گئی

جب اس کی اداسی دکھی
تو نظر وہیں ٹھہر گئی

نظر سے نظر کیا ملی
عقل وہیں بہک گئی

بات سے بات چلی تو
شام وہیں مہک گئی

گھڑی دو گھڑی شام ڈھلی تو
جان وہیں بہل گئی

پھر ملاقات سے ملاقات کیا بڑھی تو
جوانی وہیں سہل گئی

ساںس سے ساںس کیا ملی
دیوانگی وہیں سحر گئی

جب تلک آنکھ کھلی تو
آبرو وہیں دھک گئی

پس نظریں چرا کر
ادھر ادھر بھٹکنے لگا

فقط خود ہی خود کو
خودی میں مگن رکھنے لگا

اور وہ بیچاری جانی انجانی
کبھی کچھ سمجھ نہ سکی

آخر کیا غلطی کی
جو ملامت بھی نہ کر سکی

سوچتی سوچتی
ذرا بھی تسلی نہ کر سکی

فقط قلم اٹھاتے ہی
حال دل بیاں نہ کرسکی

لاکھ تدبیریں کیں مگر
چٹھی رقیب تک پہنچ نہ سکی

شاید اسی لئے زندگی کی گاڑی
کبھی آگے بڑھ ہی نہ سکی

محبت جو کبھی پنپنی تھی
سرے سے پنپ ہی نہ سکی


Wednesday 7 September 2016

Attractive

Attractive
By SAd



Damn attractive
Looks distractive
Is she effective?
Probably like a detective
Just a little directive
Never seems to be deceptive
Her routine might be defective
But she’s not captive
Nonetheless a complete festive
Difficult to comprehend but digestive
May be sometimes artificially too ejective
With fair trail too much receptive
And don’t believe her, she’s not subjective
To be precise innovative, and objective
Loving, caring, and respective
Considers everyone’s perspective
Oh SAd! You really were a close prospective
And she was! She was curiously perceptive
As lively as an adjective
But how can she be so retentive
May be you weren’t that reflective
Strangely far too protective
And the defeat!!!
It was never meant to be preventive
Now!!! Whether the itching still active or inactive
The retrieval looks rather proactive



So long...

Thursday 28 July 2016

سرمئی کتاب اور گلابی گلاب

 سرمئی کتاب اور گلابی گلاب

                   (SAd)

   


سرمئی کتاب اور گلابی گلاب 
بھلا دونوں کا کیا تعلّق ہے 
مگر وہ پھر بھی 
اس گلابی گلاب کو
اس سرمئی کتاب کے 
صفحہ نمبر ١٤١ میں چھپاتی تھی 
اکثر شام کی چائے پیتے پیتے 
وہی کتاب اٹھاتی 
سینے سے لگا کر 
سانسوں کے قریب لے جاتی 
نجانے کس کی خوشبو تھی 
جو روح میں سما جاتی  
کبھی کبھی جب آنکھیں نم ہو جاتیں 
تو اکثر 
اسی سرمئی کتاب کا 
صفحہ نمبر ١٤١ کھولتی
گھنٹوں دیکھتی رہتی  
اور پھر بڑی احتیاط سے 
اس گلابی گلاب کو اٹھا کر 
سہلاتی رہتی تھی 
جی اپنا بہلایا کرتی 
مگر 
انتظار تھا جو کبھی کم نہ ہوتا  
کوئی تھا جو کبھی سنگ نہ ہوتا 
اکثر رات کو 
جب کروٹیں لیتے لیتے تھک جاتی 
تو اپنے سرتاج سے 
چھپتی چھپاتی 
اکثر ٹی وی لاؤنج میں جاتی 
سامنے شیلف پر پڑی 
وہی سرمئی کتاب اٹھاتے اٹھاتے 
گلابی گلاب گرا دیتی 
گلاب گرتا دیکھ کر 
اسکی آنکھ بھر آتی 
مانو پل بھر کے لئے سانس رک سی جاتی 
پھر بڑی احتیاط سے 
اس گلابی گلاب کو سمیٹنے لگ جاتی 
پھر اس گلابی گلاب کو میز پر رکھ کر 
اس سرمئی کتاب کو اٹھاتی 
پھر صفحہ نمبر ١٤١ کھول کر دیکھتی  
بیش بہا آنسو بہاتی 
ایک تصویر ہی تو تھی اس میں 
جس کو دیکھنے کی خاطر 
وہ ساری حکایات دہراتی تھی 
میرا لاڈلا بچہ ہے 
مجھے میری جان سے بھی  زیادہ پیارا ہے 
تڑیاں لگا لگا کر
دنیا بھر کو بتاتی تھی 
ہنستا کھیلتا دیکھ کر 
مسکرایا کرتی تھی 
مگر اس دن صبح کو 
وہ اک گلابی گلاب لئے 
جب اپنی ماں کے پاس آیا 
ہاتھ میں گلاب تھماتے ہی معصوم بولا 
ماما اس گلاب کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں گی ناں 
میں ہوں نہ ہوں اس کو سینے سے لگائی رکھیں کی ناں  
مجھے ہمیشہ اپنی یادوں میں یاد رکھیں ہی ناں  
بھول کر بھی نہ بھولیں گی ناں 
بیچاری انجان تھی 
کچھ سمجھ ہی نہ پائی 
ایسے ہی دانٹ دیا 
پوچھا بھی نہیں کیوں تمھیں کیا ہو جائے گا 
اگر پتا ہوتا تو شاید روک ہی لیتی 
سکول جانے ہی نہ دیتی 
آخر کیا گناہ کیا تھا 
جو ایسی سزا مل گئی 
ننھی سی جان مسکراہٹ لئے 
جب سکول چلی گئی 
نجانے کیوں دل گھبرانے لگ گیا 
رہ رہ کر وہ یاد آنے لگا 
ایسے لگا کچھ برا ہوگیا 
وہ ہمیشہ کے لئے دور چلا گیا 
اسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی 
پھر شام ہوئی ایمبولنس کی آواز سے آنکھ کھلی 
ایمبولینس کی آواز تھی ہی ایسی 
پریشانی اور بڑھ گئی 
اور پھر جب لال کی لاش دیکھی 
تو جذبات قابو میں رکھ نہ سکی 
دھاڑیں مار مار رونے لگی 
آخر سکول ہی تو گیا تھا 
ایسا کیا ظلم کر دیا 
کہ کسی ظالم نے اس کی جاں لے لی 
خون کی ہولی کھیل کر 
درجنوں ماؤں کی جنت چھین لی 
خود کی آخرت بھی خراب کی 
اور ماؤں کی آہ بھی ساتھ لی 
ننھی جانیں ابدی نیند سلا دیں   
اور اپنی جان بھی ساتھ گنوا دی 
خیر اب تو بس 
گلابی گلاب ہے 
اور سرمئی کتاب 
مگر مجھے پھر بھی 
ایک بات سمجھ نہیں اتی 
سرمئی کتاب اور گلابی گلاب 
بھلا دونوں کا کیا تعلّق ہے 



Dedicated to Army Public School Peshawar Students,teachers and their Parents...



Friday 15 July 2016

راضی

راضی

                        نائیل




عرضی بھی اس کی تھی
مرضی بھی اس کی ہے

ہم تو تب بھی راضی تھے
ہم تو اب بھی راضی ہیں

Friday 24 June 2016

پھر کیوں؟؟؟

پھر کیوں؟؟؟ 

                               اسپیشل SAd



خودی میں جیتا ہوں
خودی میں مرتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟

نمازیں بھی پڑھتا ہوں
گناہ بھی کرتا ہوں

سجدے میں بھی جھکتا ہوں
حق بھی منگتا ہوں

پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
دوسروں کے حقوق سلب کرتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟

بغض بھی رکھتا ہوں
حسد بھی کرتا ہوں

دل بھی دکھاتا ہوں
آگ بھی لگاتا ہوں

پھر کیوں؟؟ پھر کیوں؟؟؟
حاسد سے پناہ بھی منگتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟


صبح کو اٹھتا ہوں
دفتر بھی جاتا ہوں

کام سے چڑتا ہوں
مشقت سے ڈرتا ہوں

پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
 صلہ میں آسائشیں منگتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟؟

قرآن بھی پڑھتا ہوں
حدیث بھی سنتا ہوں

خلقت کو ادنیٰ سمجھتا ہوں
خود اخلاق سے گرتا ہوں

پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
بدلے میں عزت منگتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟

روزے  بھی رکھتا ہوں
راتیں بھی جگتا ہوں

حج کو بھی جاتا ہوں
استطاعت بھی رکھتا ہوں

پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
زکات میں چوری فرض سمجھتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟

سادی سی زندگی ہے
اس میں نہ کوئی تنگی ہے

نوکری بھی لگی ہے
قسمت بھی دھنی ہے

پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
ہر ہر خواہش پر جیتا مرتا ہوں

یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟

یہ دنیا تو فانی ہے
اک دن مٹ جانی ہے

اک دن سب نے جان گنوانی ہیں
رب کے سامنے حاضری لگانی ہے

اور رب تو عالی ہے
رحمت اس نے دکھانی ہے

جس نے بھی کہا کہ کوئی رب نہیں اس کے سوا
اس کی مغفرت فرمانی ہے

پھرکیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
کسی نے دنیا اور آخرت دونوں گنوانی ہے

سن اے انسان تو!!!
سن لے ذرا تو

خودی میں نہ جیا کر تو
خودی میں نہ مرا کر تو

رب سے ناتا جوڑ لے تو
بات یہی سیانی ہے

اسی رب کو یاد کیا کر کیا کر تو
اسی نے مغفرت فرمانی ہے

اس میں بھلا کیا پریشانی ہے
بس آسانی ہی آسانی ہے

بس اتنی سی کہانی ہے
قبر میں رات بتانی ہے

پھر کس کی مدد آنی ہے
رب نے ہی بگھڑی بنانی ہے

اسی کے ہاتھ میں ہی ناکامی ہے
اس کے سنگ ہی کامرانی ہے

گر یہ تبلیغ تو چلتی جانی ہے
مگر تجھ کو کب سمجھ آنی ہے؟؟؟؟


آخر کیوں ہم یہ بات نہیں سمجھتے کہ یہ دنیا فانی ہے. یہ زندگی اور اس کی تمام آسائشیں فانی ہے. یہ سب کچھ ایک دن ختم ہو جائے گا اور سب لوگ الله کے حضور پیش ہوں گے اور وہاں ہی سزا اور جزا کا فیصلہ کیا جائے گا. اسلئے میرے بھائیو!!! اپنی سمت سہی کرو اور الله کا ڈر دل میں بسا لو پھر دیکھنا وہ کیسے بگھڑی بناتا ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی سے نوازتا ہے.......

Saturday 18 June 2016

فروری کی پندھرویں برسات

فروری کی پندھرویں برسات
                                       نائیل 





نہ وہ نومبر کی پہلی شام تھی
نہ وہ دسمبر کی آخری رات تھی

نہ ہی وہ جنوری کی کوئی ساعت تھی 
ہاں مگر وہ فروری کی پندھرویں برسات تھی

جب ہم تم سے اور تم ہم سے بچھڑے تھے
ایسے جیسے اک ٹہنی کے دو پتے بکھرے تھے

گل گلستان سے اجھڑے  تھے
خواب ہمارے بکھرے تھے

انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے

جھاڑے کے موسم کے گزرنے کا انتظار ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے رکنے کا انتظار ہے

 اب تو بس ہمارے ملن کا انتظار ہے
وقت کے یکسر بدلنے کا انتظار ہے

انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے

Friday 27 May 2016

غریب

غریب
                          SAd




ہاں میں غریب ہوں
خواہشوں کا مطیع ہوں

آسائشوں سے فصیح ہوں
مگر لذتوں کا صبیح  ہوں

محفلوں کا امیر ہوں
مگر حماقتوں کا جریر ہوں

گمان سے شفیع ہوں
مگر اخلاق سے قبیح ہوں

بظاہر تو میں مسیح ہوں
مگر باطن میں حقیر ہوں

ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہوں
جہاں موقع مل جائے وہیں سب کا پیر ہوں

شاید اسی لئے دنیا میں تو رفیع ہوں
مگر حقیقت میں ایک مریض ہوں

کہنے کو تو طالب بقیع ہوں
مگر!!! مگر!!! میں تو باغئ  سمیع ہوں 

ہاں میں غریب ہوں
خواہشوں کا مطیع ہوں


*مفہوم الفاظ*
*مطیع ----- طابع ، فرمانبردار، غلام
* فصیح ---- یہاں مالا مال کے طور پر استعمال ہوا ہے
* جریر ---- دلیر، بہادر
*قبیح ---- بد، برا
*صبیح --- ادھر طلبگار کے طور پر استعمال ہوا ہے
*رفیع ---  کامیاب، بلند، ترقی یافتہ
*بقیع --- جہن بہت زیادہ درخت ہوں، جنت سے
*سمیع--- سننے والا، الله کا نام

Wednesday 25 May 2016

The Fear

The Fear

                        SAd




The fear of dying
Dying from inside
Why it keeps haunting
The fear of losing
Losing someone very special
Why it keeps hurting
The fear of being alone
Alone in the dark
Why it keeps trembling
and
The fear of being unworthy
undesired
Why it keeps accumulating
When in reality
Life never stops
It goes on
The pendulum of the clock
Never stops
It Goes
On and on
Tick tock Tick Tock
Until those strange fears
The fears of becoming unknown
Becomes the reality
The very soul
That once matted
Matter no more

Matter no more

Friday 13 May 2016

دل لگی

دل لگی

                      نائیل



وہ بولے:-
 جناب! آپ کی تو دل لگی تھی

ہم بولے:-
پھر دل پر کیوں لگی تھی؟

وہ بولے:-
جو بھی تھا مگر عشق نہیں تھا

ہم بولے:-
مگر وہ مرید بھی نہیں تھا

جو بھی تھا حسیں بہت تھا
اس کا نہ ہونا غمگیں بہت تھا

جب وہ تھا مانو ایسے تھا جیسے
میں ابھی اسی وقت سب کچھ وار دوں گا

اپنے سب غم، سب پریشانیاں
اک جھٹکے میں بھلا دوں گا

بس اس کو سنوں گا اور سنتا چلا جاؤں گا
وقت کے سب پیمانے یکسر گھما دوں گا

اس کو اتنا پیار دوں گا
کہ روٹھنا تک بھلا دوں گا

مگر کیا بتاؤں کہ میں خود ہی بیوفا نکلا
میں خود اپنے ہی درد میں مبتلا نکلا

جب اس کو میری ضرورت پڑی
میں ہی دنیا سے بیزار نکلا

مگر ابھی بھی امید کا دامن تو اب بھی نہیں چھوڑا
اک خواہش نے ناتا اب بھی نہیں توڑا

اک خواہش کہ کاش وہ راضی ہو جائے
اور وہ دل پر لگی پھر سے مان جائے

سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے
وہ میرا ہنسنا وہ میرا کھیلنا سب لوٹ آئے

بس ایک بار اس کا جینا مرنا میرے سنگ ہو جائے
تنے تنہا یوں جینا بصم ہو جائے

اس کا ملنا ایک رسم ہو جائے
پھر چاہے آنکھ کا کھلنا بند ہو جائے