Friday 27 May 2016

غریب

غریب
                          SAd




ہاں میں غریب ہوں
خواہشوں کا مطیع ہوں

آسائشوں سے فصیح ہوں
مگر لذتوں کا صبیح  ہوں

محفلوں کا امیر ہوں
مگر حماقتوں کا جریر ہوں

گمان سے شفیع ہوں
مگر اخلاق سے قبیح ہوں

بظاہر تو میں مسیح ہوں
مگر باطن میں حقیر ہوں

ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہوں
جہاں موقع مل جائے وہیں سب کا پیر ہوں

شاید اسی لئے دنیا میں تو رفیع ہوں
مگر حقیقت میں ایک مریض ہوں

کہنے کو تو طالب بقیع ہوں
مگر!!! مگر!!! میں تو باغئ  سمیع ہوں 

ہاں میں غریب ہوں
خواہشوں کا مطیع ہوں


*مفہوم الفاظ*
*مطیع ----- طابع ، فرمانبردار، غلام
* فصیح ---- یہاں مالا مال کے طور پر استعمال ہوا ہے
* جریر ---- دلیر، بہادر
*قبیح ---- بد، برا
*صبیح --- ادھر طلبگار کے طور پر استعمال ہوا ہے
*رفیع ---  کامیاب، بلند، ترقی یافتہ
*بقیع --- جہن بہت زیادہ درخت ہوں، جنت سے
*سمیع--- سننے والا، الله کا نام

Wednesday 25 May 2016

The Fear

The Fear

                        SAd




The fear of dying
Dying from inside
Why it keeps haunting
The fear of losing
Losing someone very special
Why it keeps hurting
The fear of being alone
Alone in the dark
Why it keeps trembling
and
The fear of being unworthy
undesired
Why it keeps accumulating
When in reality
Life never stops
It goes on
The pendulum of the clock
Never stops
It Goes
On and on
Tick tock Tick Tock
Until those strange fears
The fears of becoming unknown
Becomes the reality
The very soul
That once matted
Matter no more

Matter no more

Friday 13 May 2016

دل لگی

دل لگی

                      نائیل



وہ بولے:-
 جناب! آپ کی تو دل لگی تھی

ہم بولے:-
پھر دل پر کیوں لگی تھی؟

وہ بولے:-
جو بھی تھا مگر عشق نہیں تھا

ہم بولے:-
مگر وہ مرید بھی نہیں تھا

جو بھی تھا حسیں بہت تھا
اس کا نہ ہونا غمگیں بہت تھا

جب وہ تھا مانو ایسے تھا جیسے
میں ابھی اسی وقت سب کچھ وار دوں گا

اپنے سب غم، سب پریشانیاں
اک جھٹکے میں بھلا دوں گا

بس اس کو سنوں گا اور سنتا چلا جاؤں گا
وقت کے سب پیمانے یکسر گھما دوں گا

اس کو اتنا پیار دوں گا
کہ روٹھنا تک بھلا دوں گا

مگر کیا بتاؤں کہ میں خود ہی بیوفا نکلا
میں خود اپنے ہی درد میں مبتلا نکلا

جب اس کو میری ضرورت پڑی
میں ہی دنیا سے بیزار نکلا

مگر ابھی بھی امید کا دامن تو اب بھی نہیں چھوڑا
اک خواہش نے ناتا اب بھی نہیں توڑا

اک خواہش کہ کاش وہ راضی ہو جائے
اور وہ دل پر لگی پھر سے مان جائے

سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے
وہ میرا ہنسنا وہ میرا کھیلنا سب لوٹ آئے

بس ایک بار اس کا جینا مرنا میرے سنگ ہو جائے
تنے تنہا یوں جینا بصم ہو جائے

اس کا ملنا ایک رسم ہو جائے
پھر چاہے آنکھ کا کھلنا بند ہو جائے

Friday 6 May 2016

صیاد

صیاد  

                       نائیل 



دیدار صنم سے لیکر
دیدار یار تک
صیاد بیٹھے ہیں
تیار بیٹھے ہیں

بندوکیں اٹھائے
آستینیں چڑھائے
کرنے کو شکار
بلا عذر بے اختیار بیٹھے ہیں


دیدار صنم سے لیکر
دیدار یار تک
صیاد بیٹھے ہیں
تیار بیٹھے ہیں



آپ لوگوں کی پرزور فرمائش پر چھوٹی سی ننھی منھی سے غزل.....