Tuesday 25 February 2014

Janaa

Janaa

                                   SAd special




Janaa
o meri janaa

maine hai yeh janna
hoon me teraa deewanaa

Mana hai maine yeh maana
hoon me teraa ik parwanaa


sunna zara ghor se sunna
mere aik choti si arz to sunna


rehnaa tum rehna 
dil ki malka ban kar tm rehna

Kehnaa tm kehnaa
dil ki sab baatein tm hm se hi kehna


lagana tm lagana
dil ke paichay hm se hi lagana




O Jaan e Janaa

Nah Nah arey nah nah
yun hum se door tu mat jaana

agr hai tm ko zaroori jaana
to waapis lout kar tm anaa

tarpana itna to na tarpana
bas ab to tu maan jaana

Churana yun  humse nazarein churana
Nahi tou mar jaye ga yeh deewanaa


Sehna phir tum hi sehna
ghum judayii k tum hi sehna

kyunke yeh duniya
chor jaye ga yeh perwanaa

O Jaan e Janaa



Since the start of this Blog I learned A lot of things about poetry, about life, about expressing your feeling and using illusions. I tried different things, styles , tactics and emotions to express my feelings and some stories and I am please to inform you that some of these are Marvelous. As for me this the last one and  Suicide the first one and  was the best of the all. But the circumstances forced me to write three more poems after this one. If you don't understand it then probably after my comeback i'll translate all of these poems for my international followers.....
                                              In-Sha-Allah!

Sunday 23 February 2014

مائیں

مائیں

                                         SAd



لرز اٹھا، کانپ اٹھا، تڑپ اٹھا چلا اٹھا 
 دیکھا جو اک ماں کو اپنی انا پوری کرتے 

دیکھا جو اک ماں کو بلکتے بچے کو یوں پھینکتے

 دیکھا جو اک ماں کو تڑپتے لال کو یوں چھوڑ کر جاتے

  دیکھا جو اک ماں کو اپنے شیر خوار بچے سے جدا ہوتے
 دیکھا جو یہ منظر اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے




 سنا تھا کہ مائیں راتوں کو اپنے لال کے سرہانے بیٹھتی تھیں
 لوری سناتی تھیں، دلاسے دیتی تھیں، خواب سجاتی تھیں 



اپنی اولاد کے آرام  کی خاطر
 خود بے آرام ہو جاتی تھیں 
 ساری ساری رات جاگ کر آنکھوں میں صورت بساتی تھیں 

ارے میری تو جان ہی نکل گئی اپنے دور کی ماؤں کو دیکھ کر

 شرمندگی سے  ڈوب مرا اس منظر کو ان نگاہوں سے دیکھ کر 



 دیکھی اک اور ماں کی محبت اپنے لخت جگر کی خاطر
 تھا وہ معصوم بے بس، لاچار، شدت مرض سے دو چار

تھی وہ تو ماں بھی آزاد خیال اور ہوشیار باش

آخر نکل ہی پڑے معصوم کی آنکھ دو آنسو 

بلکتے بچے کا نہ تھا خود پر کوئی اختیار
درد سے تنگ آ کر آخر رو ہی پڑا لاچار

پھر کیا تھا دے دیا اک تھپڑ بے اختیار
کلیجہ آ گیا منہ کو کیا کرتا اب انتظار

نہ کچھ سوجھ سکا، نہ کچھ سمجھ سکا
رو دیا زوروں سے بیچارہ آخر بے شمار 

 چلا اٹھا میں بھی اور میرا ضمیر پروانہ
اٹھ گیا بھروسہ دنیا سے، ہو گیا میں بیگانہ




نکلازبان سے کہ اب تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے 

ارے جس کی ماں ایسی، اس کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے

شاید یہ سب کچھ تو تیری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا نائیل
آخر دنیا میں کیا ہو رہا ہے یہ کس کو جاننے کی پڑی ہے 

Saturday 22 February 2014

Strange

Strange

                        By SAd






Whenever I see this picture


A new world comes into my imagination

I used to sunk into the strange thoughts

Thoughts that forced me to ponder

Suddenly, thousands of question begin to rise in my mind

Then automatically they seems to be answered

A question still annoys me

Who is this girl in the picture?

So focused on the camera with no concern for the surrounding

What does she wants? What she is thinking? Why she is 

so curious?

That guitar she holds in her right hand

Seems to play a magical tone

The tone I never heard of, I never learned

The lyrics that are so clear

What is the thing she is so immersed in

Why so lonely, so quietly, So rejoicing

I can feel her wanting to say something

But after all what is the secret she is hiding?

I believe SAd you are just wasting your time

Its nothing, she is just playing with her memories


Wednesday 12 February 2014

پھر سے

پھر سے

            نائیل 





گزرا جو اس گلی سے
ہوئی یاد تازہ پھر سے

کھلا ایک پھول خوشی سے
ٹوٹا یہ دل پھر سے



امید سی ہوئی پیدا من میں

اک خواہش جو ابھری پھر سے



لگا کھڑے ہو تم اپنی چوکھٹ پر 

کرتے ہوۓ ہمارا انتظار پھر سے




جیسے ہی پڑی تمہاری نظر مجھ پہ
 لگے دل ہی دل میں مچلنے پھر سے
  

لو پھر چرائیں نظریں ہم سے

جھک گئی ہماری نظریں پھر سے 


اٹھایا جو سر تم نے تکبر سے
لوٹ لیا! لوٹ لیا! یہ جہاں پھر سے


فقط ہم مسکرا ہی دیے عاجزی سے
یونہی سر جھکائے چل دیے پھرسے

تھا جو فاصلہ چار قدم کا
 بڑھتا ہی چلا گیا پھرسے


الجھ گئے ہم تو ایک نئی الجھن میں
کھو گیا چین، کھو گیا سکون پھرسے

نہ  آئے ہم کبھی لوٹ کر
رہ گئے یاد کرتے پھرسے

پر یہ تو تھا شاید ماضی بعید
 معلوم تھا جو کافی مدت سے

نہیں تھے تم آج اپنی چوکھٹ پر
کیوںکہ گزرنا تھا ہم کو پھرسے


سن! میرے خالق نے مجھے صبر دیا اپنی قدرت سے
میں کبھی نہیں مرتا تیری جدائی کے غم سے

وہی زنگی دیتا ہے، وہی زندگی لیتا  ہے

اسی نے جان بخشی، دیا سکون پھر سے




اب اس غزل کے بارے میں کیا تبصرہ کروں؟ اب اپنے بارے میں کیا لکھوں؟ سب کچھ تو سامنے ہے نہ کچھ چھپا ہوا ہے اور نہ ہی کچھ چھپا سکتا ہوں. بس اک ہی ذات سب کا پردہ رکھتی ہے اور وہ میرے خالق کی ذات ہے.

Saturday 8 February 2014

تیسرا دن، تیسری ،ملاقات

تیسرا دن، تیسری ،ملاقات ، تیسری قسط 

                        نائیل





تھا تو تنہا نکلا علم کی تلاش میں 
نہ تھا تجھے کوئی غم ، نہ تھی کوئی تکلیف 

تھا شاید تو راضی پر خوش تو نہ تھا 
ہیں تھے لاکھوں ارمان پر پھر بھی پر امید 



گزرا جب  ایک گھر کی چوکھٹ سے 
 پایا اک بوڑھے انساں کو کار کی  صفائی  کرتے 

سمجھا تو اسکو ما لک، اسکی لگن دیکھ کر 
نہیں معلوم  تو نےکیاسوچا ، بس چلتا رہا 


 گزرا جو نوکڑ کی دکان سے 
سوچا کچھ کھا لے 

پر دل ہی دل میں کیوں انکار کردیا 
معلوم تو نہ  تھا ایک وقت کی روٹی نہ ملے گی پھر 

خیر پہنچا اپنی منزل پر، لگا انتظار کرنے 
 گزری جو وہی  گاڑی تو پڑی نظر تیری 


پھر ہوا تیسرا دیدار، تیسرے دن تیری زنگی کے 
تھی وہ بھی جا رہی تعلیم کےحصول کی خاطر 

تھی وہ بیٹھی پیچھے کسی پری کی طرح 
تھا وہی ما لک ملازم کی جگہ 

نہ جانے کتنے دن تو اس کو باپ سمجھا


ہوئی ہلچل پھر دل میں پیدا

چڑھ گیا دروازے پر بس کے  تعقب میں اسکے 
لگا دیکھنے چوری چوری، بےپروا 

تھا رش تھوڑا، تھی امید تھوڑی 
تھے بادل آسماں پراور ٹھنڈ زمین پر 

تو تھا کھلی ہوا میں ،وہ تھی تھوڑی ناراض 
 حیرت تھی تجھ کو اک بار بھی نہ دیکھا 

بس پھر ساون برسا ،لٹ گیا میلا

رہ  گیا تو ڈھونڈھتا بھیڑ میں اسکو

کھو گئی وہ، سو کھو گیاتو بھی تو 
پھر تو ملا نائیل سے، کیا سلام 


ملا جواب اور چل دیا 
تیسرا دن، تیسری ملا قات 

یہ دو تھے تیری زندگی میں آئے بہار کی ماند 
دے گئے دکھ کسی ظالم کی ماند 

ہے اب تو صرف  رب پر بھروسہ
کیا کوئی یار،کیا کوئی فریاد
کیا کوئی اعتبار،کیا کوئی انکار    



یہ میرے کالج کے تیسرے دن کی کہانی ہے.اس میں دو چیزیں ہوئیں وہ پیش خدمت ہے.   

Tuesday 4 February 2014

داستان

داستان 

                             نائیل

 

یارو! کیا سنایئں داستان اپنی
ہاتھوں میں تھا تبرک اور ماتھے پر بل 

راضی تو نہ تھے مگر ثواب کی خاطر چل پڑے
مگر اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس طرح مل جائیگا

ہاں تھوڑی بہت آس تو تھی لیکن!
وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھی

چند دن پہلے جب وہ باہر آئی تھی
اس کی چال ذرا نہ بہائی تھی

ہوا کچھ یوں کہ وہ باہر آئی بے پردہ ، بے باک 
اور میں تھا ہاتھ میں لئے گندم کی بوری موٹر سائیکل پر سوار


بس جانے انجانے دل کو چبھی وہ 
شاید دل میں سوئی کی طرح دکھی وہ 

خیر وہ بات تو ہو گئی تھی کچ پرانی
 کسی امید پر تو تھی زندگی کی روانی
خیر اجڑے پھجرے بوجھل قدم لئے
بلآخر چڑھ گئے ان کی دہلیز

گر گھنٹی  تو دی تھی بجا اور کرنے لگے انتظار 
اچانک سماں بدلہ،  پروانہ اجلا، لو جی آگئی بہار 

ان کے قدموں کی آہٹ سے جھکی ہماری  نظر 
کھلا جو دروازہ اٹھی نظر، جھکی نظر 


ہو گئے اوسان خطا پڑتے ہی پہلی نظر 
گیلے تھے بال اور بھڑکیلے تھے لباس 

آئی مسکان چہرے پر ان کے دیکھ کر ہم کو 
لاۓ جو تھے ہم کھیر انکے گھر کو

فقط بھول گئے چہرہ دیکھ کر
کہ کس لئے آئے تھے نائیل!

سلام کا کرنا تھا کہ ہوش آیا
 ورنہ سورج غروب ہوتے ہوتے اپنا کام دیکھا جاتا 

کانپتے کانپتے بڑھائی پلیٹ جو انکی طرف 
نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے جھپٹ لی 

وہ چلی  گئی اندر تنہا چھوڑ  کر ہمیں 

ہم! ہم تو بس دیدار کی چاہ میں سکتے میں رہ گئے


کرتے ہوۓ انتظار دل میں لڈو لگے پھوٹنے
واپسی جب ماں کے ساتھ ہوئی، خواب لگے ٹوٹنے

ہم نے پھر جھکی نظروں سے کیا سلام 
بس پھر ہوں ہاں میں ہی ہوا وسلام

پوچھا بیٹا کہاں سے آئے ہو، پیغام خوشی کا لائے ہو 
بس منہ سے اتنا ہی نکل سکا   "پروفیسرکے گھر سے"

اب تو کچھ کہنے سننے کی ہمت اور نہ تھی
بس اشارے سے ہی گھر کی دہلیز دکھلا دی

جی بھر کر دیکھنا تو اب دور کی بات تھی 
داروغہ جو ساتھ لائی تو دل کی بات دل میں ہی رہنا تھی 

آ گے کیا سناؤں اس ٹوٹے دل کا حال
لئے برتن اور بس گھر کو چل دیے 

مایوسی مایوسی سے ہی واپس ہو لئے
دل کے ارمان دل میں ہی گھول لئے

نائیل!! ابھی تو بس ہم ہلے ہی تھے دیکھ  کر معصومیت انکی
ابھی تو غرور دیکھنا باقی تھا، ڈھیر ہونا باقی تھا 


نہ تب کوئی امید تھی ، نہ اب کوئی ہے 
جو رب نے لکھ دیا نصیب میں، وہی سب کچھ ہے

مگر دیکھ کر دروازہ پھر سے داستان لکھنے کا  دل چاہتا ہے
کمبخت پھر سے وہ پل جینے کو یہ دل چاہتا ہے