Sunday 19 October 2014

یار

یار
         SAd



تھیں حسیں وہ یادیں، تھے حسین وہ خواب 
جن کو ہم دیکھا کرتے تھے ہزار بار

لڑتے تھے پل پل، جگھڑتے تھے بار بار
مناتے تھے پھر سب کو، اکٹھے تھے سب یار

دکھ تھے کچھ کم کم، خوشیاں تھی بے حد
اسی لئے رہتے تھے ہر دم ہم  تیار

سنتے تھے اک دوجے کو، سمجھتے ہر بات
تھے کھیلتے کودتے گزر جاتے دن رات

پر جیسے ہی ہوئے جواں ہم
ہو گئے مصلحتوں کا شکار

فقط چھوٹی سی باتیں تھی اب ناقابل برداشت
غلطی تھی کس کی، نہ جانے کس کی تھی چال


دوستی تھی جو کل تک، دشمنی تھی اب بے باک
بکھرے پتے سب آخر آندھی کے ہی ساتھ

پھر شروع ہوئی کھینچا تانی
لگے کرنے سازشیں بے شمار

اس نے یہ کہا، میں نے یہ سنا، نہیں نہیں وہ تو یہ کہتی تھی
اس پر تم لعنت بھیجو بن کے میرے سچے یار

کل تک جس کے سامنے نظریں نہیں اٹھتی تھیں
پکڑنا تھا اس کا گریبان، لے کر بدلہ ہی ملنا تھا قرار

عزت تو پھر آج رولنی تھی
آخر کب تھی یہ کسی کی میراث

ہوا پھر کہیں سے اک مسیحا نمودار
کہا کسی کو کچھ، چل دیا پھر ہو کر بے اختیار

لگنے لگا کہ دل کی دھڑکن کچھ رک سی گئی
اسے ملنے کی شمع بج جو گئی تھی یار

نہ آیا وہ مسیحا، بیت گئے لمحے ہزار
میرا رب ہی تھا شاید میرا رازدار

ہو کر مجبور ہم خود ہی پہنچ گئے بہت دور
دیکھ کر بھول گیا وہ زمانے کے سب دستور

لگایا گلے سے، رولایا دل سے
بٹھایا آنکھوں میں، ملا وہ بہت شدت سے

معلوم ہوا کہ پہلا قدم ہی اٹھانا تھا  دشوار
بس یونہی کر لی تھی انا سر پر سوار

وہ تو تھا معافی مانگنے کے لئے ہمیشہ سے تیار
کچھ سجن تھے بس بہت ہی ہوشیار

ڈالتے رہے دوستوں میں دراڑ
نہ  سمجھ سکے رویے پراسرار

ٹھانی پھر کبھی نہیں بنے گے کٹھ پتلی
بن کر رہیں گے ہمیشہ کی طرح یار

چاہے کر کے دیکھ لو اب سازیشیں ہزار
 نہیں چھوڑیں گے ہم ساتھ اب کی بار

لڑیں گے اکٹھے، مریں گے اکٹھے
رہیں گے جو اب بن کی سچے یار
 
           اس دنیا بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دو دوستوں کو کبھی اکٹھا نہیں دیکھ سکتے کیونکہ خود ان کا کوئی سچا دوست نہیں ہوتا. اسی لئے وہ جب بھی دو دوستوں کو اکٹھا دیکھتے ہیں تو ان کی جڑیں کاٹنے میں لگ جاتے ہیں. مگر اگر دوست سچے ہو تو ان سازشوں کا ہر وار بے اثر جاتا ہے. اس نظم ایسے ہی ایک واقعے کو موضوع بحث بنایا ہے. امید ہے اپ کو پسند آئے گی.

Saturday 11 October 2014

ایک طالب علم کی دہائی

ایک طالب علم کی دہائی 

                       (SAd special)



پوچھا کسی نے بیٹا کیا کرتے ہو
آخر کیوں نظروں سے بچتے پھرتے ہو

بولا چچا!! بس یوںہی پڑھائی کے چکر میں خوار ہوں
شاید اسیلئے تو دوسروں کی نظروں کا شکار ہوں

صبح سویرے جو گھر سے نکلتا ہوں
پھر رات گئے جا کر لوٹتا ہوں

راتوں کو جاگ جاگ کر ان کتابوں سے گھولتا ہوں
مستقبل کی خاطر ہی یہ سب کچھ جھیلتا ہوں

تاریک راہوں میں روشنی ڈھونڈتا ہوں
دین اور دنیا دونوں سے دوریا جھیلتا ہوں




 خوشی کے لمحوں سے دور امتحانوں سے الجھتا ہوں
عید، شبرات، شادی و بیاہ سب معذرت سے پیلتا ہوں

عاشقی کے موسم میں فضول نوٹس ڈھونڈتا ہوں
باتوں ہی باتوں میں دنیا کے داؤ پیچ بیلتا ہوں

باپ میرا میری علیم کی خاطر لہوں خرچ کرتا ہے
آخر اسی کے پیسوں سے اپنے خواب دیکھتا ہوں


ہاں پڑھائی کی ہی خاطر تو گھر سے نکلتا ہوں
نہ جانے کیوں اس کی بانہوں میں جھولتا ہوں

ضرورت کو محبت کا نام دے کر
زمانے کے داغ دامن میں سمیٹتا ہوں

بس آخر میں جب بہت تھک جاتا ہوں
ادھر ادھر کے کاموں میں سکون ڈھونڈتا ہوں

کبھی پان، کبھی سگرٹ، اور کبھی چھالیہ
نہ کام بنے تو نشے میں راحت ڈھونڈتا ہوں

آدھی زندگی پڑھائی کے چکر میں 
باقی کچھ بننے میں گزار دیتا ہوں

ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی
رب سے ملنے کی تیاری کس وقت پر چھوڑتا ہوں

ضمیر میرا مر چکا ہے شاید
اسی لئے غیرت کو پیسوں میں تولتا ہوں

یہ دنیا اپنے اشاروں پر نچاتی ہے
اور اسی کے اشاروں پر ناچنے کو دوڑتا ہوں

بس اس نظام سے کیا گلا کروں
آخر خود ہی میں خود سے کھیلتا ہوں


اس نظم میں نے ہمارے اعلی تعلیمی نظام پر تھوڑی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے. میں نے اس میں طالب علموں ک مسائل اور ان کی اندر کی برائیوں کا تذکرو کر نے کی کوشش بھی کی ہے. ہمیں کچھ ایسے چیزوں پر روشی ڈالنے کی ضررورت ہے جو معاشرے کی نظر سے بالاتر ہیں اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے. میری نظر انقلاب مورخہ ٢٨ اگست سے مکمل ہے مگر جب تک یہ دھرنے ختم جاتے میں اس کو پیش نہیں کر سکتا. امید ہے اس نظام میں جو پیغام میں نے دینے کی کوشش کی ہے وہ  سمجھ سکیں.

شکریہ !!!