Sunday 17 September 2017

گمشدہ

گمشدہ
             نائیل






تلاش ہے اک گمشدہ کی
دعا ہے یونہی کبھی مل جائے

جو مل جائے تو
تو یاد کا سوال اٹھ جائے

اور جواب ہو کہ
یاد تو ذرا برابر نہیں آتی

ہاں مگر جب کبھی گنگنانے کا من ہو
تو ذکر اسی کا بزباں ہوتا ہے

جب کبھی فضا میں اداسی چھائے
تو عنوان اسی کا رواں ہوتا ہے

جب کبھی کوئی پکار لگے
تو گمان اسی کا جواں ہوتا ہے

جب کبھی غزل کی آمد ہو
تو مطلع مقطع اسی کا بیاں ہوتا ہے

اور جب کبھی دل دکھے
تو نام اسی کا بدنام ہوتا ہے

پھر سوال اٹھے کہ
کیا محبت اب بھی باقی ہے؟

جواب ہو کہ نہیں
شاید اب محبت نہیں رہی

کیونکہ اب کسی اور کو
اپنانے کا خیال آتا ہے

مگر جب کبھی ایسا خیال آئے
تو چہرا اسی کا عیاں ہوتا ہے

جب وہ تھی تو
سب کچھ پانے کی چاہ تھی

مگر اب جب وہ نہیں تو
بس شام ڈھلنے کی چاہ ہے

کہنے کو تو سب کچھ پاس ہے
مگر جو اسکا ساتھ نہیں تو سب خاک ہے

سچ کہتا ہوں تلاش ہے اک گمشدہ
دعا ہے یونہی کبھی مل جائے