Saturday 11 October 2014

ایک طالب علم کی دہائی

ایک طالب علم کی دہائی 

                       (SAd special)



پوچھا کسی نے بیٹا کیا کرتے ہو
آخر کیوں نظروں سے بچتے پھرتے ہو

بولا چچا!! بس یوںہی پڑھائی کے چکر میں خوار ہوں
شاید اسیلئے تو دوسروں کی نظروں کا شکار ہوں

صبح سویرے جو گھر سے نکلتا ہوں
پھر رات گئے جا کر لوٹتا ہوں

راتوں کو جاگ جاگ کر ان کتابوں سے گھولتا ہوں
مستقبل کی خاطر ہی یہ سب کچھ جھیلتا ہوں

تاریک راہوں میں روشنی ڈھونڈتا ہوں
دین اور دنیا دونوں سے دوریا جھیلتا ہوں




 خوشی کے لمحوں سے دور امتحانوں سے الجھتا ہوں
عید، شبرات، شادی و بیاہ سب معذرت سے پیلتا ہوں

عاشقی کے موسم میں فضول نوٹس ڈھونڈتا ہوں
باتوں ہی باتوں میں دنیا کے داؤ پیچ بیلتا ہوں

باپ میرا میری علیم کی خاطر لہوں خرچ کرتا ہے
آخر اسی کے پیسوں سے اپنے خواب دیکھتا ہوں


ہاں پڑھائی کی ہی خاطر تو گھر سے نکلتا ہوں
نہ جانے کیوں اس کی بانہوں میں جھولتا ہوں

ضرورت کو محبت کا نام دے کر
زمانے کے داغ دامن میں سمیٹتا ہوں

بس آخر میں جب بہت تھک جاتا ہوں
ادھر ادھر کے کاموں میں سکون ڈھونڈتا ہوں

کبھی پان، کبھی سگرٹ، اور کبھی چھالیہ
نہ کام بنے تو نشے میں راحت ڈھونڈتا ہوں

آدھی زندگی پڑھائی کے چکر میں 
باقی کچھ بننے میں گزار دیتا ہوں

ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی
رب سے ملنے کی تیاری کس وقت پر چھوڑتا ہوں

ضمیر میرا مر چکا ہے شاید
اسی لئے غیرت کو پیسوں میں تولتا ہوں

یہ دنیا اپنے اشاروں پر نچاتی ہے
اور اسی کے اشاروں پر ناچنے کو دوڑتا ہوں

بس اس نظام سے کیا گلا کروں
آخر خود ہی میں خود سے کھیلتا ہوں


اس نظم میں نے ہمارے اعلی تعلیمی نظام پر تھوڑی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے. میں نے اس میں طالب علموں ک مسائل اور ان کی اندر کی برائیوں کا تذکرو کر نے کی کوشش بھی کی ہے. ہمیں کچھ ایسے چیزوں پر روشی ڈالنے کی ضررورت ہے جو معاشرے کی نظر سے بالاتر ہیں اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہے. میری نظر انقلاب مورخہ ٢٨ اگست سے مکمل ہے مگر جب تک یہ دھرنے ختم جاتے میں اس کو پیش نہیں کر سکتا. امید ہے اس نظام میں جو پیغام میں نے دینے کی کوشش کی ہے وہ  سمجھ سکیں.

شکریہ !!! 

No comments:

Post a Comment