Sunday 11 June 2017

تنہا

تنہا
                   نائیل


ایک خیال مجھے جینے نہیں دیتا
تیرا خمار مجھے پینے نہیں دیتا

روز شب تنہا یہی سوچتا ہوں
کیوں کوئی تنہا جینے نہیں دیتا

کیوں کوئی تنہا ہسنے نہیں دیتا
کیوں کوئی تنہا مرنے نہیں دیتا

جب کبھی رونے کا من ہو
کیوں کوئی تنہا رونے نہیں دیتا

اکثر میں تنہا انجان راہوں پر نکل جاتا ہوں
دن ہو یا رات بن منزل بھٹک جاتا ہوں

جب چلتے چلتے تھک جاتا ہوں
خدا کی قدرت میں سموع  جاتا ہوں

دنیا کی نفسہ نفسی بھی پر امن لگتی ہے
دل کی بے ہنگم روداد بھی چمن لگتی ہے

جہاں انجان راہ بھی آسان لگتی ہے
وہیں میری زندگی اکثر مجھے بے جان لگتی ہے

بن مقصد جینا بھی کوئی جینا ہے؟
بن مقصد جینے کی قیمت طوفان لگتی ہے

جہاں واپسی کی راہ ویران لگتی ہے
وہیں چاہت کی چاہ گلستان لگتی ہے

رستہ چاہے کتنا بھی کٹھن ہو
منزل ہمیشہ آسان لگتی ہے

اگر محبت تجھے امتحان لگتی ہے
وفا کی بات مجھے گمان لگتی ہے

مگر تیرے بنا جھومنے کی آس
تنہا جینے کی پیاس پشیمان لگتی ہے