Friday 14 April 2017

شرمندہ

شرمندہ 

                         نائیل




اے عشق آج ہم شرمندہ ہیں
ہیں زندہ مگر شرمندہ ہیں

دست و گریباں تو ںہیں مگر
آنکھوں میں آنسو لئے رنجیدہ ہیں

دقت ہے کہ خوش ہوں یاں ماتم کریں
غلطی سمجھیں یاں کسی کوتاہی میں شمار کریں

کسی اور کا جرم اپنے سر لیں
یاں یوںہی زندگی برباد کریں

زندگی ہی برباد کریں گے شاید
تم سے محبت جو کر بیٹھے تھے

تمھارے خیالوں میں جینے لگے تھے
تمھاری باتوں میں جھومنے لگے تھے

صبح شام تم سے ملنے لگے تھے
تنہائی کو سر عام کوسنے لگے تھے

تمہاری یادوں، ملاقاتوں، قہقوں اور رفاقتوں کو
اپنی ملکیت سمجھنے لگے تھے

گر جب تم سے بچھڑے تو
تمھارے عکس کو ڈھونڈنے لگے تھے

وہ تمہارا عکس ہی تھا شاید
جس سے دل لگا بیٹھے تھے

پھر محبت کے نام دے کر
یوںہی گمراہ ہو بیٹھے تھے

کاش کے ہم رفیق ہی اچھے بنا لیتے
یوں تمھارے ہاتھوں رسوا نہ ہوتے

عشق کرتے تو شان سے کرتے
یوں گھٹ گھٹ تنہا نہ مرتے

چہرے پر مسکان تب بھی ہوتی
مگر آن بان شان شاید الگ ہی ہوتی

اور پھر چاہے ہم تم سے جدا بھی ہو جاتے
مگر تمہاری گلی کوچوں سے نا آشنا کبھی نہ ہوتے

یوں تمھارے ہاتھوں رسوا ہم کبھی نہ ہوتے
اور تمھارے عشق میں شرمندہ ہم کبھی نہ ہوتے