Thursday 14 January 2016

پکار

پکار

            نائیل



نہیں نہیں وہم تو نہیں ہے
میرا یقین کرو وہم نہیں ہے

کوئی ہے جو پکار رہا ہے
مجھے اپنے پاس بلا رہا ہے

دن رات اک ہی صدا لگا رہا ہے
میرے انتظار میں خام-خا  آنسوں بہا رہا ہے

شاید وہ وہی شہر ہے جو مجھے پکار رہا ہے
وہی شہر جو اپنی حدوں کو بڑھا رہا ہے

سن او شہر! اگر تو سن رہا ہے
اگر تو ہی ہے جو پکار رہا ہے

سن لے کہ میں آؤنگا
اک دن لازمی آؤنگا

مگر آج نہیں، نہیں اس ہفتے نہیں
نہیں نہیں اس مہینے تو بلکل نہیں

ہاں مگر میں اسی سال آؤنگا
جون نہیں تو جولائی تک پہںچ جاؤنگا

سب رشتے ناتے توڑ کر
سب اپنے سپنے چھوڑ کر

اک دن تیرے پاس آونگا
آ کر تجھے اپناؤں گا

تیرے سوالوں کے جواب بھی ساتھ لاؤنگا
گویا سب جوابوں کی اک لڑی بناؤں گا

بس تھوڑا سا انتظار اور کر
جہاں اتنا صبر کیا تھوڑا اور کر

تھوڑا مجھے سمجھ
تھوڑی میری مجبوری سمجھ

گلے شکوے اک جگہ
بس تو اک عہد پکڑ

عہد کے میں اک دن آؤںگا
آ کر تجھے اپناؤں گا

مگرتو بھی اک عہد کر
پس تو بھی ایک وعدہ کر

کہ جس دن میں آؤںگا
تو مجھ سے منہ نہیں موڑے گا

میں تو تیرا ساتھ نہیں چھوڑسکونگا
مگر تو بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑیگا

باقی جو بھی قسمت کو منظور ہوا
پھر وہی میرا نصیب ہوا

چل اب میں چلتا ہوں
تجھ سے اجازت طلب کرتا ہوں

تھوڑے دنوں بعد ہی سہی
جب میرے رب نے چاہا تجھ سے آ کر ملتا ہوں

Saturday 2 January 2016

عاشقوں کی کہانیاں

عاشقوں کی کہانیاں

                            SAd





عاشقوں کی کہانیاں بھی بہت عجیب ہوتی ہیں
دل کے تھوڑا نزدیک ہوتی ہیں

دیدار یار سے شروع ہوتی ہیں
اظہار عشق پر پروان چڑھتی ہیں

کم و بیش درجنوں نشیب و فراز کی متیع ہوتی ہیں
کچھ ملن پر اپنی منزل مقصود کو پہنچتی ہیں

مگر حقیقت پسند بات کروں تو
زیادہ تر جدائی پر اختتام پذیر ہوتی ہیں

کبھی کبھارعاشقوں کی باتیں سن کر
ایک عجیب سی چاشنی پیدا ہوتی ہے

نجانے کیوں طلسماتی کشش محسوس ہوتی ہے
متوجہ رہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے

سر،تال اور سنگیت کا سنگم ہوتا ہے
ایک ساز تھوڑا تیز، دوسرا تھوڑا مدھم ہوتا ہے




جانے انجانے میں فضا میں
سرور کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے

جی کرتا ہے کہ وہ بس سناتے رہیں
ہم ٹیک لگائے بس سنتے رہیں

دل سے دعائیں نکل رہی ہوتی ہیں
فتح کی گونج بلند کر رہی ہوتی ہیں

کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے
جیسے کہ کوئی سکرین سامنے لگی ہے

وہ پہلی نظر، پھر دوبارہ گزر اور وہ آخری عذر
فقط ساری گھٹنا آنکھوں کے سامنے گھٹ رہی ہوتی ہے

بس الله نہ کرے جدائی کسی کے نصیب میں نہ آئے
کبھی کوئی عاشق غم دل دل میں نہ بساتے

سچ پوچھو تو زندگی رل جاتی ہے
ننھی سی جان غلط رستے نکل جاتی ہیں

ایسا رستہ جہاں کبھی اجالا نہیں ہوتا
ایسا رستہ جہاں صرف اندھیرا ہی اندھیرا رہتا ہے

ایسا رستہ جہاں سے کبھی واپسی نہیں ہوتی
کچھ سوچنے، کچھ سمجھنے کی قوت نہیں رہتی

ہاں اگر میرے رب کی عنایت ہو جائے
اس کی طرف سے ہدایت مل جائے

تو بندہ تر جاتا ہے
بھنور سے نکل جاتا ہے

روشنی کو پا لیتا ہے
سچائی کو سمیٹ لیتا ہے

عشق سے عشق حقیقی کی طرف پرواز بھرتا ہے
کامیابی و کامرانی کی طرف رخ موڑ لیتا ہے

مگر ہدایت بھی ایسے ہی نہیں ملتی
ملے بھی تو کسی کسی کو ملتی ہے

چاہ! سیدھی راہ کی چاہ! سچ جاننے کی چاہ!
ہاں! سچ جاننے کی چاہ بہت ضروری ہوتی ہے

گویا ساری زندگی کی غلطیاں، کوتاہیاں
پلک جھپکتے مٹ جاتی ہیں

خیر! بات پھر گھوم پھر کر ادھر ہی آگئی
شاید زندگی کی سچائی پھر سامنے آگئی

دنیا کی بے ثباتی پھر سمجھ آگئی
فانی! فانی! فانی! دنیا پھر کہلا گئی

چاہے کوئی عاشق تھا چاہے کوئی معشوق
مگر موت پھر بھی دونوں کو آگئی

عزت، ذلت اعمال نامہ سے میل کھا گئی
جنت، دوزخ ساری زندگی کا صلہ ٹھہرا گئی

بات کہاں سے شروع ہوئی کہاں پر آگئی
شاید اس غزل کی کہانی انجام پا گئی

بس اک آخری بات کہوں گا
ذرا  دیہان سے سننا

کلمہ طیبہ کبھی نہ چھوڑنا
اسلام سے منہ کبھی موڑنا

کلمہ طیبہ کبھی نہ چھوڑنا
اسلام سے منہ کبھی نہ موڑنا

نہیں تو سب کیا کرایا
دہرا کا دہرا رہ جائے گا



اتفاق سے اس دسمبر میں کچھ لکھنا گوارا نہیں کیا. سب لوگ تو دسمبر برا بھلا کہ رہے تھے مگر مجھ سے پوچھو تو وہ تو بس ایک مہینہ ہے، وہ تو بس وقت ماپنے کا اک پیمانہ ہے. اس کا تو کوئی قصور ہی نہیں پھر بھی نجانے کیوں بیچارے کو سب کوستے رہتے ہیں، اپنے سارے دکھ اس پر انڈھیلتے رہتے ہیں. مگر میرے کہنے سننے سے تھوڑی نہ کچ ہو جانا ہے بس اک دو ہی کو سمجھ آنا ہے. مگر میں نے تو بس انہی کو ہی سمجھانا ہے......