Thursday 16 July 2015

عاشق اور ہم

عاشق اور ہم

                         SAd



لوگ مختلف غم سینے میں چھپاتے ہیں
مگر ہم تو عجب درد دل میں بساتے ہیں

لوگ عشق اور محبت میں چوٹ کھاتے ہیں
مگر ہم تو عجب ہی گل کھلاتے ہیں

لوگوں کو تو محبوب مل جائے
تو ڈنکا سارے شہر میں بجاتے ہیں

نہ ملے تو رو دھو کر دل بہلاتے ہیں 
اپنا دکھڑا ساری دنیا کو بتلاتے ہیں

مگر ہم پر تو کامیابی بھی ناکامی بن کر ٹوٹتی ہے
بہترین نہیں تو پھر طعنوں سے بھی کام چلاتے ہیں


ان کی محبوب کو پانے کی چاہ انہیں جینے نہیں دیتی
مگر ہم تو اپنی محنت کے صلے سے خوش ہوجاتے ہیں


وہ راتوں کو جاگنے کا قصہ ساری دنیا کو بتلاتے ہیں
مگر ہم نیند سے بھڑ کر کتابوں میں سر کھپاتے ہیں 


ان میں تو محبوب سے بات کرنے کی سکت بھی نہیں ہوتی
مگر ہم تو دنیا جہاں کی رنجشوں کو سہتے چلے جاتے ہیں

بیچارے وہ لوگ جب جدائی سے ہاتھ ملاتے ہیں
ہم دنیا فتح کرنے کے خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں


ان لوگوں کو کوئی کمائی شامائی کی فکر نہیں ہوتی
وہ تو بس دل لگی کے ساز گن گناتے ہیں

ہم سے پوچھے بھلا کوئی ڈھیلا جیب میں نہیں
اور اسٹیو جاب کو موبائل چلانا سکھاتے ہیں

ان لوگوں کی سوچ تو بہت محدود ہوتی ہے
مگر ہم شہزادے تو ہر فن مولا کہلاتے ہیں

شکر کرو ان لوگوں کی کوئی ادارہ باز پرس نہیں کرتا
ہم سے پوچھو یہ یونیورسٹی والے کیسے ظلم ڈھاتے ہیں

ان کو تو دنیا والے ہیر، رانجھا، اور مجنو کے خطاب نوازتے ہیں
مگر ہمیں نکمے، کم چور اور ہڈحرام کی اصطلاح میں لاتے ہیں

وہ لوگ تو پھر بھی سچے عاشق کہلاتے ہیں
مگر ہم کیا بتائیں؟؟ ہم تو طالبعلم کہلاتے ہیں




کچھ چیزوں کو اپنے سر لینے سے خوشی ہوتی ہے مگر اس کو میں اپنے سر نہیں لینا چاہتا. مجھے ڈر ہے کہ لوگ اس کا غلط مطلب لینگے اور میری پرانی نظموں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھیں گے کہ میں تعلیم کہ خلاف ہوں. نہیں ہرگز نہیں بلکہ میں تو تعلیم کا بہت بڑا حامی ہوں. تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے تو میں کیسے غلط بات کہہ سکتا ہوں. میں تو اصل میں اس تعلیمی نظام کے خلاف ہوں اور اس کے ہی خلاف لکھتا ہوں اور اس میں جو کمیاں ہیں وہ بیان کرتا ہوں. میں شاید اگر زندگی رہی تو اپنی نظم میں یا کسی مضمون میں اپنا تعلیمی ماڈل پیش کروں جس میں آپ لوگوں کے سب ابہام دور ہو جاینگے.

اگر اس نظم میں کوئی غلطی کوتاہی نظر آئے تو نشاندہی کر دی جئے گا.

شکریہ !!!!

Sunday 5 July 2015

ہتھیلی

ہتھیلی

                        SAd





بیٹھے بیٹھے پڑ ہی گئی نظر ہتھیلی پر
دیکھتے دیکھتے ٹک ہی گئی نظر ہتھیلی پر

خالی خالی سی تھی اپنی زندگی پر
اسی ریل پیل میں ڈھیلا بھی نہ ہتھیلی پر

ہنسی چھوٹ رہی تھی اپنی مفلسی پر
کر بھی کیا سکتے تھے اپنی بےبسی پر

ایسا کوئی خاص قصوربھی نہیں تھا پر
 کمانے کا کوئی ذمہ بھی نہیں تھا ہم پر

لگا دیا تھا ہمیں تو پڑھائی کی دگڑھ پر
فقط نان و نفقہ کا سارا ذمہ تھا ہمارے والدین پر

ہٹا کٹا، عاقل بالغ، سب کچھ تو تھا پر
فقط کچھ بھی تو نہیں تھا ہتھیلی پر

کہتے تھے کہ یہی ریت رواج ہیں ان راہوں پر
کون سمجھاتا کہ یہ تو سراسر ظلم ہے جوانوں پر

آخر کب سے پلو سے باندھ کر رکھا ہے ہم سب کو پر
وقت کا پیمانہ مخصوص ہے نہیں روکتا کسی جگہ پر

ساری محنت لگا دیتے ہے ان کتابوں پر
مگر کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہتھیلی پر



گزر جاتی ہےہماری آدھی زندگی پر
کوئی سرے سے بوجھ نہیں ہوتا ہم پر

پستا رہ جاتا اکیلا کمانے والا اسی آس پر
ایک دن تو ملے گا سکون اسی روش پر

رہ جاتا ہے پھر شاہین زمانے کے رحم و کرم پر
پر تو کاٹ دیتے ہیں لگاتا ہے امید پھر سے اگنے پر

کچھ اسی کو زندگی کہہ کر چل پڑتے ہیں اس راہ پر
جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی کسی بھی موڑ پر

اور پھر کچھ مجبور ہوجاتے ہیں ایسے کاموں پر
کرتا رہتا ہے ملامت ضمیر ساری زندگی جن پر

رہ گئی عشق معشوقی وہ تو چھوڑ دی ہے افسانوں پر
جو دکھتی ہے اس کا دار و مدار ہے نفسانی خواہشوں پر

آخر سب الزام کیوں ڈالتے رہتے ہیں زمانے پر
کرتوت تو ہمارے ہیں تو کیسا صلا آزمانے پر

بڑھو! چلو بڑھو! کرو! کچھ تو کرو اس ضمن پر
کہیں یہ نہ ہو پھر سب تکتے ہی رہ جایئں ہتھیلی پر