Thursday 28 July 2016

سرمئی کتاب اور گلابی گلاب

 سرمئی کتاب اور گلابی گلاب

                   (SAd)

   


سرمئی کتاب اور گلابی گلاب 
بھلا دونوں کا کیا تعلّق ہے 
مگر وہ پھر بھی 
اس گلابی گلاب کو
اس سرمئی کتاب کے 
صفحہ نمبر ١٤١ میں چھپاتی تھی 
اکثر شام کی چائے پیتے پیتے 
وہی کتاب اٹھاتی 
سینے سے لگا کر 
سانسوں کے قریب لے جاتی 
نجانے کس کی خوشبو تھی 
جو روح میں سما جاتی  
کبھی کبھی جب آنکھیں نم ہو جاتیں 
تو اکثر 
اسی سرمئی کتاب کا 
صفحہ نمبر ١٤١ کھولتی
گھنٹوں دیکھتی رہتی  
اور پھر بڑی احتیاط سے 
اس گلابی گلاب کو اٹھا کر 
سہلاتی رہتی تھی 
جی اپنا بہلایا کرتی 
مگر 
انتظار تھا جو کبھی کم نہ ہوتا  
کوئی تھا جو کبھی سنگ نہ ہوتا 
اکثر رات کو 
جب کروٹیں لیتے لیتے تھک جاتی 
تو اپنے سرتاج سے 
چھپتی چھپاتی 
اکثر ٹی وی لاؤنج میں جاتی 
سامنے شیلف پر پڑی 
وہی سرمئی کتاب اٹھاتے اٹھاتے 
گلابی گلاب گرا دیتی 
گلاب گرتا دیکھ کر 
اسکی آنکھ بھر آتی 
مانو پل بھر کے لئے سانس رک سی جاتی 
پھر بڑی احتیاط سے 
اس گلابی گلاب کو سمیٹنے لگ جاتی 
پھر اس گلابی گلاب کو میز پر رکھ کر 
اس سرمئی کتاب کو اٹھاتی 
پھر صفحہ نمبر ١٤١ کھول کر دیکھتی  
بیش بہا آنسو بہاتی 
ایک تصویر ہی تو تھی اس میں 
جس کو دیکھنے کی خاطر 
وہ ساری حکایات دہراتی تھی 
میرا لاڈلا بچہ ہے 
مجھے میری جان سے بھی  زیادہ پیارا ہے 
تڑیاں لگا لگا کر
دنیا بھر کو بتاتی تھی 
ہنستا کھیلتا دیکھ کر 
مسکرایا کرتی تھی 
مگر اس دن صبح کو 
وہ اک گلابی گلاب لئے 
جب اپنی ماں کے پاس آیا 
ہاتھ میں گلاب تھماتے ہی معصوم بولا 
ماما اس گلاب کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں گی ناں 
میں ہوں نہ ہوں اس کو سینے سے لگائی رکھیں کی ناں  
مجھے ہمیشہ اپنی یادوں میں یاد رکھیں ہی ناں  
بھول کر بھی نہ بھولیں گی ناں 
بیچاری انجان تھی 
کچھ سمجھ ہی نہ پائی 
ایسے ہی دانٹ دیا 
پوچھا بھی نہیں کیوں تمھیں کیا ہو جائے گا 
اگر پتا ہوتا تو شاید روک ہی لیتی 
سکول جانے ہی نہ دیتی 
آخر کیا گناہ کیا تھا 
جو ایسی سزا مل گئی 
ننھی سی جان مسکراہٹ لئے 
جب سکول چلی گئی 
نجانے کیوں دل گھبرانے لگ گیا 
رہ رہ کر وہ یاد آنے لگا 
ایسے لگا کچھ برا ہوگیا 
وہ ہمیشہ کے لئے دور چلا گیا 
اسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی 
پھر شام ہوئی ایمبولنس کی آواز سے آنکھ کھلی 
ایمبولینس کی آواز تھی ہی ایسی 
پریشانی اور بڑھ گئی 
اور پھر جب لال کی لاش دیکھی 
تو جذبات قابو میں رکھ نہ سکی 
دھاڑیں مار مار رونے لگی 
آخر سکول ہی تو گیا تھا 
ایسا کیا ظلم کر دیا 
کہ کسی ظالم نے اس کی جاں لے لی 
خون کی ہولی کھیل کر 
درجنوں ماؤں کی جنت چھین لی 
خود کی آخرت بھی خراب کی 
اور ماؤں کی آہ بھی ساتھ لی 
ننھی جانیں ابدی نیند سلا دیں   
اور اپنی جان بھی ساتھ گنوا دی 
خیر اب تو بس 
گلابی گلاب ہے 
اور سرمئی کتاب 
مگر مجھے پھر بھی 
ایک بات سمجھ نہیں اتی 
سرمئی کتاب اور گلابی گلاب 
بھلا دونوں کا کیا تعلّق ہے 



Dedicated to Army Public School Peshawar Students,teachers and their Parents...



Friday 15 July 2016

راضی

راضی

                        نائیل




عرضی بھی اس کی تھی
مرضی بھی اس کی ہے

ہم تو تب بھی راضی تھے
ہم تو اب بھی راضی ہیں