Sunday 12 April 2015

میں کیوں

میں کیوں

SAd                                    



میں کیوں خود ہی شکست مان رہا ہوں
میں کیوں جیت کی پیاس بجھا رہا ہوں

میں کیوں بس یونہی جیتا جا رہا ہوں
میں کیوں اب جینے سے کترا رہا ہوں

میں کیوں مصلحتوں میں الجھتا جا رہا ہوں
سچ جان کر بھی جھوٹ بتلا رہا ہوں

میں کیوں اتنا درد سینے میں چھپا رہا ہوں
دل کے رستوں پر پہرے بیٹھا رہا ہوں

میں کیوں آسماں تجھ سے نظریں ملا رہا ہوں
اور پھر زمین میں خود ہی دھنستا جا رہا ہوں

میں کیوں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں
بس انا کی خاطر چینختا چلا جا رہا ہوں 

میں کیوں دلاسوں پر دلاسے دیے جا رہا ہوں
شاید رات گزارنے کی سازش بنا رہا ہوں

میں کیوں اب خود سے نظریں چرا رہا ہوں
شاید ایک نہ ایک دن پکڑ میں جو آرہا ہوں


میں کیوں بوسیدہ سوچوں میں ڈوبی جا رہا ہوں
لگن کے بدلے سستی گلے سے لگا رہا ہوں

میں کیوں اپنے ہونے کا جتن جتا رہا ہوں
زندگی میں تو تجھے نکچڑی بنا رہا ہوں

میں کیوں سچائی سے منہ چھپا رہا ہوں
فانی دنیا کی خاطر آخرت گنوا رہا ہوں

میں کیوں اپنے گناہوں پر پردہ ڈال رہا ہوں
شاید خود ہی خود کو بے وقوف بنا رہا ہوں


میں کیوں بس یونہی لکھتا جا رہا ہوں
شاید کاغذ قلم کی قیمت چکا رہا ہوں




کبھی کبھار آپ کی زندگی میں وقت ایسا آتا ہے کہ آپ کی زندگی بہت سے کیوں کے گرد گھومنا شروع ہوجاتی ہے. ہم جتنی جلدی اس کیوں کیا جواب تلاش کریں گے ہمارے لئے اتنا ہی اچھا ہے ورنہ یہ کیوں بڑھ کر ایک سانپ کی طرح ہمیں نغل جائے گا.