Sunday 21 December 2014

آج کا دن

آج کا دن

                                         by SAd



ٹیاؤں!! ٹیاؤں!! ٹیاؤں!! 
ٹیں ! ٹیں! ٹیں!
ٹوں! ٹوں! توں!
ٹیاؤں!  ٹیاؤں! ٹیاؤں!
کی آوازیں مسلسل میرے کانوں میں گونج جا رہی ہیں. مجھے کچھ علم نہیں کہ مجھے کہاں لے کے جا رہے ہیں بس ان عجیب سی آوازوں سے میرا سر چکرا رہا ہے. میرے سامنے کھڑے دو شخص، سخت پریشانی کے عالم میں، ایک دوسرے پر چینخی چلائی جا رہے ہیں اور مجھے ان کی ایک بھی بات سمجھ نہیں آرہی اور مجھے کافی دھندلہ دھندلہ سا دکھائی دے رہا ہے. شاید میری بینائی بھی اب میرا ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے. مگر میرا دیہان تو صبح کے منظر میں لگا ہے. آج کا دن کچھ زیادہ ہی لمبا معلوم ہو رہا ہے.

میں آج صبح سات بجنے کے باوجود سو رہا تھا. میری فجر کی نماز بھی چھوٹ گئی تھی. عموماً میری گھڑی کا الارم صبح ٦:١٠ پر روزانہ بج جاتا ہے مگر نجانے کیوں آج اس کے سیل ہی ختم ہو گئے. عین چھ بجے پر سوئی اٹک گئی. میں ابھی نیند میں ہی مدہوش تھا کہ اک دم میرے کانوں میں دروازہ کے کھٹکنے کی آواز سنائی دی اور میری آنکھ کھل گئی.

"بلال! بلال بیٹا! تیار ہو گئے ہو تو ناشتہ کر لو، ابھی دس منٹ میں گاڑی آجاۓ گی. جلدی سے نیچے آجاؤ اور ناشتہ کر لو. آج تمہاری پسند کے سلائس بنائے ہیں."

مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے مجھے کوئی شاک دے دیا ہو. "او میرے خدایا! اتنا ٹائم ہو گیا. اف! اب اتنی جلدی تیار کیسے ہوئںگا. آج تو انسپکشن بھی ہے." میں نے من ہی من میں چھٹی کی پلان بنانا شروع کر دیا مگر پھر نجانے مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آئی. میں اٹھا اور اٹھ کر تیار ہونے لگ گیا. غلطی سے کپڑے میں نے رات کو ہی استری کر لئے تھے تو بس منہ شوں دھویا، کپڑے شپڑے پہنے اور سیدھا کھانے کی میز پر پہنچ گیا.

"سعد! آج تم نے پھر دیر کر دی. اب تم پھر آدھا سلائس کھاؤ گے اور پھر تمہاری بس کی پاں پاں ہوگی اور تم بھوکے ہی چلے جاؤ گے." امی جان نے آج پھر مجھے صبح کو ڈاندٹنا شروع کر دیا اور وہ بھی اسی وجہ سے جس وجہ سے پہلے ڈانٹتی تھیں. میری امی مجھے اتنا ڈانت ڈپٹ  نہیں کرتیں بس جس دن میری قسمت خراب ہو تو اس دن میری بہت بےعزتی ہوتی، نہ صرف گھر میں بلکہ اسکول میں بھی. مجھے اندازہ ہو گیا کہ آج وہی دن ہے. اسی لئے میں چپ چاپ سر جھکا کر معصوم بچے کی طرح بیٹھا رہا. اور امی جان بولتی گئیں اور میں سنتا رہا.

مگر ہائے کمبختی میرے منہ سے کیا نکل گیا. "مما! اسکول میں بریک کے وقت لنچ کر لوں گا ناں، آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسی آج میں ناشتہ نہیں پورا کروں گا تو مر ہی جاؤں گا" اچانک ماحول میں خاموشی نے بسیرا ڈال دیا. ایسا لگا جیسے کسی نے واقعے میں بری خبر سنا دی ہے. مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب میں کیا کہوں. میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک پاں پاں کی آواز آئی اور میں جلدی سے خدا حافظ کہہ کر اپنی ماں کو اسی حالت میں چھوڑ کر چلا گیا.

میری آنکھوں کے سامنے کھڑے بندوں کے چہروں پر اب پریشانی بڑھنے لگی ہے. دسمبر کے مہینے میں پسینے سے ان کے چہرے بھر رہے ہیں. میرے چہرے پر جو خوشی کچھ دیر پہلے نمایاں تھی وہ اب شاید دم توڑ رہی ہے. دل کی دھڑکن تیز اور سانس پھول رہا ہے. مگر میرا سر فخر سے بلند ہے، میرے حوصلے جوان ہیں، مگر دل! میرا دل پھر بھی غمگین ہے. آج کا دن ہی کچھ عجیب سا ہے.

اسکول کے راستے میں تو سب کچھ نیا نہیں تھا. وہی  بس، وہی اونچی نیچی سڑک، وہی ڈرائیور اور وہی روز کی کھٹ کھٹ، 'میں نے آگے بیٹھنا ہے، میں نے آگے بیٹھنا ہے' اور میرے ساتھ کون؟ وکی!!! ہائے وکی!!!وکی!! میرا دوست!

ہم پہلی دفعہ پہلی جماعت میں ملے تھے. وہ دن ہے اور آج کا دن، ہم ایک ساتھ ہی ہیں. نہ اس کا میرے بنا اور نہ ہی میرا اس کے  بنا اسکول میں دل لگتا تھا اور شاید اسی لئے آج آٹھ سال گزرنے کے باوجود ہم دوست تھے. ہم کو کتنی ہی دفعہ تو سزائیں ملی. کبھی  کلاس میں باتیں کرتے هوئے تو کبھی کسی کی نقل اتارتے وقت اور نہیں تو ویسے ہی کوئی گڑبڑ ہو جائے تو ہم معصوموں کا نام ہی سامنے آتا تھا. اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بلکل ہی نیلے تھے بلکہ ہمارا شمار تو ہونہار طلبہ میں ہوتا تھا. بس اک ہی مسلہ تھا کہ وکی ہمیشہ مجھ سے سبقت لے جاتا تھا اور آج بھی اس نے یہی کیا....

جوں جوں وقت گزرہا ہے میرا دل گھٹ رہا ہے. ہمیں ہمارے استاتزہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ بیٹا گزرا وقت واپس نہیں آتا، آج پڑھ لو پھر موقعہ نہیں ملے گا. آج ہی سے محنت کرنا شروع کر دو اور ہم نے ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دی مگر وہ سہی تھے جو ہو چکا وہ اب واپس نہیں ہو سکتا ہمیں آگے کا سوچنا ہے اور آگے بڑھنا ہے اور مجھے تو اپنی منزل سامنے ہی دکھائی دے رہی ہے.

صبح کو ہم اسکول وقت پر ہی پہنچ گئے تھے اور اسمبلی کی مشقت کے بعد انسپکشن کا وقت آخر آ ہی گیا. خیر میری قسمت اچھی نکلی کیونکہ جب میری چیکنگ کی باری آئی تو مانیٹر کو میڈم نے بلا لیا اور میری بلے بلے ہو گئی. بس پھر وہی گھسیٹی پیٹی کلاس میں ہم واپس چلے گئے. پر آج میرا دل سکول میں لگ نہیں رہا تھا. وقت گزارنا محال ہو رہا تھا. خدا خدا کر کہ پہلی کلاس ختم ہوئی اور میں نے سکھ کی سانس لی. میں نے وکی سے کہا، "چل یار! باہر کی ہوا کھا کر آتے ہیں" مگر جیسے ہی باہر نکلنے لگے تو سامنے سر ظہیر میتھ کی کلاس لینے کے لئے تیار کھڑے تھے. ان کو دیکھ کر میرا سر گھومنے لگ گیا تھا.

"بیٹا! کدھر جا رہے ہو؟ چلو شاباش! کلاس کا وقت ہو گیا ہے، چلو کلاس میں" سر اپنے مخصوص انداز میں بولتے ہوئے ہمیں کلاس میں واپس لے گئے. بس وہی پل تھا، ہاں وہی پل تھا جب برا وقت شروع ہو گیا تھا. سر ابھی کلاس میں آئے ہی ہونگے اور ہم اپنی نشت پر براجمان بھی نہیں ہوئے ہونگے جب اچانک ایک خوفناک سی آواز نے ہمیں ہلا کر دیا. ایسا لگا کہ کسی نے کوئی دروازہ زور سے بند کیا ہو اور پھر دروازے کی دوسری طرف سے بندے نے اسے ایک ہی وار میں توڑ دیا ہو. کلاس میں اس وقت مکمل سناٹا تھا اور ہر کوئی حیران تھا کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے؟

                                                                         End of Part 1
 To be Continued     

Thursday 18 December 2014

امید

امید

SAd                   




اداس دلوں میں ایک بار پھر سے جان بھر دی
میرے ملک کے بڑوں نے کچھ دوا جو کر دی

درندوں کی ٹھا ٹھا نے عجب رغبت پیدا کر دی
دشمن دھڑوں میں بھی یکجہتی کی فضا پیدا کر دی

ماتم بچھا ہے پھولوں کے شہر میں گلی گلی
مگر ایک ملاقات نے کچھ سوزش کم کر دی

لڑتے، جھگڑتے، انسانوں کی بلی چڑھاتے وحشی
امن پسند لوگوں پر تونے یہ کیسی دہشت پیدا کر دی

ہے پوری قوم رنجیدہ، ماؤں کے کلیجے چھلنی
او ظالم! یہ تو نے  کیسی یہ قیامت بھرپا کر دی

جن ہاتھوں میں ہوتی تھی کاپیاں کتابیں کل تک
ان ہاتھوں میں دوستوں کی لاشیں ہی رکھ دیں

تجھ کو برا بھی کہوں تو کن الفاظ میں کہوں ظالم
تو نے تو بربریت کی  تمام حدیں بھی ترک کر دیں

ڈوبتی نییہ میں پھر سے اک نئی امنگ پیدا کر دی
حکمرانوں نے آج اپنی انا ایک طرف جو رکھ دی 

لوگ کہیں گے جھلے دلاسوں نے تیری آنکھ بند کر دی
 مگر اک فیصلے نے دل کی ساری رنجش دفع جو کر دی

اکٹھے ہونے کا وقت آگیا ہے میرے ہم وطنوں
شکاری نے آج خون سے ندیاں جو تر کر دیں

غم تو بہت بڑا ہے، فقط درد تو بہت سہا ہے
 مگر اک امید نے تھوڑی سی عیادت کر دی

جینے کو تو پوری عمر پڑی تھی
آخر زندگی ہی نے ہی نہ کر دی

مانگوں بھی تو بھلا اب مغفرت کیسے مانگوں
میرے رب نے بچوں کی مغفرت ویسے ہی کر دی


پشاور سانحے کے بارے میں میں کیا کہ سکتا ہوں. کیا لکھ سکتا ہوں، میرے پاسس تو الفاظ ہی نہیں ہیں کہ میں اس واقعہ کا ذکر بھی کروں. اب جو یہ ہو چکا ہے تو ہمیں جگ جانا چاہیے وار اس چیز کو ممکن بنانا چاہیے ک یہ آخری دفعہ ہے. ایسا واقعہ نہ پھر کبھی ہو گا اور نہ کبھی ہونے دیں گے. اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے والوں سے ایک ایک چیز کا حساب لینے کا وقت آگیا ہے. اگر پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنا ہے اور اگے بڑھنا ہے تو ان درندوں کا جڑ خاتمہ سے خاتمہ کرنا ہو گا. بس بہت کوتاہی ہو گی، بہت نظریں چرا لی بس اب تو اینٹ کا جواب پتھر سے ہی ہوگا. اور یہ پتھر آخری پتھر ہی ہوگا....