Sunday 14 February 2016

سنو

سنو!!!

                 نائیل



سنو!!!
مجھے تم سے
کچھ کہنا ہے
اک بار تم کو
سینے سے لگانا ہے
سینے سے لگا کر
حال دل سنانا ہے
حال دل سنانا کر
اقرار عشق سننا ہے
اقرار عشق میں سننا ہے
کہ تمھیں مجھ سے پیار ہے
اتنا پیار جتنا کہ
سوہنی کو ماہیوال سے تھا
اور ہیر کو رانجھا سے تھا 
اور سسسی کو پننو سے تھا 
اور صاحبہ کو مرزا سے تھا
اور اتنا جتنا کہ
لیلیٰ کو منجنو سے تھا
فقط اتنا پیارکہ جس کی روشنی سے
چاند ستارے بھی مدھم پڑ جائیں
اظہار کی خاطر
الفاظ بھی کم پڑ جائیں
ناز کی خاطر
نکھرے بھی کم پڑ جائیں
ملاقات کی خاطر
شامیں بھی کم پڑ جائیں
ساتھ کی خاطر
ہماری عمریں بھی کم پڑ جائیں
نذر و نیاز کی خاطر
ہماری جانیں بھی کم پڑ جائیں 
حتیٰ کہ وفا کی خاطر
بیوفائی بھی کم پڑ جائے
بس اک بار سینے سے لگ کر
تم جو کہہ دو
میں بس تمہاری ہوں
جدائی کی ماری ہوں
تم جو ہاں کہہ دو
پھر اس دنیا سے عاری ہوں
اب کی بار جو سینے سے لگایا ہے
پھر سے جو دل میں بسایا ہے
ساتھ نبھانے کا عہد جو دوہرایا ہے
تو اس پر قائم رہنا
مجھ سے کبھی دور نہ جانا
اگر تم چلے گئے
تو میں لٹ جاؤں گی
زندگی ہار جاؤں گی
جینے کی تمنا بھول جاؤں گی
سنو!!!
تم جو لٹ گئی
تو میں بھی لٹ جاؤں گا
تم جو ہار گئی
تو میں بھی ہار جاؤں گا
اگر تمہاری جینے کی تمنا نہ رہی
تو میں تو مر ہی جاؤں گا
اب تو بس
رب سے یہی دعا ہے
کہ اس بار جو
تمہارا ساتھ دیا ہے
تو اس ساتھ کو
ہمارے نصیب میں کرے
شیطان کی چالوں سے
ہماری حفاظت کرے
سب سے بڑھ کر
ہماری محبت کو
ہمارے ساتھ کو
ابد تک
قائم و دائم رکھے
آمین!

میں نے یہ غزل کچھ اور سوچ کر لکھنا شروع کی تھی مگر اس کی کوئی اور ہی شکل نکل آئی ہے. خیر اس غزل میں میں نے میاں بیوی کی تعلّق کو ناراضگی ہونے کے بعد ان کی صلح ہونے کے عمل کو موضوع بنایا ہے(حالاں کہ مجھے خاک نہی پتا کیوں کہ میری کونسا ہوئی ہے شادی). مگر پھر بھی امید ہے آپ کو پسند آئی گی. اپنی آراء سے ضرور اگاہ کی جئے گا.