Wednesday 30 March 2016

اک بار

اک آخری بار
                 نائیل 



بس!!!
اک بار!!!
اک آخری بار!!!
تمھیں دیکھنا چاہتے ہیں
تمہاری بھولی بھالی
معصوم سی صورت
دل میں بسانا چاہتے ہیں
تمہاری نظروں سے
نظریں ملا کر
دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں
تمھیں!!! بس تمھیں!!!
سننا چاہتے ہیں
سمجھنا چاہتے ہیں
بس تمھارے ساتھ
کچھ پل بیتانا چاہتے ہیں
تھوڑا ہنسنا چاہتے ہیں
تھوڑا رونا چاہتے ہیں
ان پرانی یادوں کو
ان حسین ملاقاتوں کو
پھر سے جینا چاہتے ہیں
گر اک آخری بار
تمہارے دل کی
دھڑکن سننا چاہتے ہیں
ہمیں آج بھی یاد ہے
وہ تمہارا بات بات پر لڑنا
شکوے شکایتیں کرنا
ہمارا بے پناہ انتظار کرنا
خود دیر سے آنا
اور آتے ہی
 سارا ملبہ ہم ہی پر ڈالنا
بغیر کچھ کہے، بغیر کچھ سنے
ہمیں ہی قصور وار ٹھہرانا
اتنا بے بس کر دینا
کہ
چوں تک پر بھڑک جانا
پھر جب ہم نے
اپنے حق میں صفائی پیش کرنا


تو تم نے منہ پھلا کر بیٹھ جانا
پھر ہم نے گھنٹوں منانہ
تم نے مسلسل نظریں چرانا
ہم نے معافی معافی کی رٹ لگانا
تو تم نے تھوڑا سمبھل جانا
جیسے ہی ہماری جان میں جان آنا
تم نے عہد و پیماں لینا
ہم نے لبیک لبیک دوہرانا
پھر آخر میں
 وہ تمہارا مسکرا دینا
سب اک پل میں بھلا دینا
پیار بھری نظروں سے
محبت کے تیر برسا دینا
بس!!! 
اسی ادا پر ہم مر گئے تھے
نٹ کھٹ لمحوں میں بس گئے تھے
پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی
ہماری منت حسرت بن گئی
تمہاری یاد فطرت بن گئی
اکیلے بیٹھنا عادت بن گئی
یونہی بیٹھے بیٹھے
کبھی ہنسنا، کبھی رونا
ضرورت بن گئی
اک تیری نراضگی
وبال جاں بن گئی
روز جینا، روز مرنا
عادت بن گئی
ہماری ایک غلطی
ہمارے گلے پڑ گئی
نادان تھے
نادانی کر گئے
معافی بھی کیسے ملتی
جانے انجانے
کیسی شیطانی کر گئے
ہنسی کھیلتی محبتیں بانٹتی
چاند سی پری
کی
دل آزاری کر گئے
ہم تو اب
معافی کے طلبگار ہیں
شاید کسی دن
انکا من ہلکا ہو جائے
شاید ان کا دل
ہماری معصومیت کا گواہ بن جائے
وہ مان جائے
سب بھول جائے
بس!!!
اک آخری بار!!!
ہماری التجا قبول ہو جائے
ہمیں معافی مل جائے
ہمیں معافی مل جائے