Saturday 18 June 2016

فروری کی پندھرویں برسات

فروری کی پندھرویں برسات
                                       نائیل 





نہ وہ نومبر کی پہلی شام تھی
نہ وہ دسمبر کی آخری رات تھی

نہ ہی وہ جنوری کی کوئی ساعت تھی 
ہاں مگر وہ فروری کی پندھرویں برسات تھی

جب ہم تم سے اور تم ہم سے بچھڑے تھے
ایسے جیسے اک ٹہنی کے دو پتے بکھرے تھے

گل گلستان سے اجھڑے  تھے
خواب ہمارے بکھرے تھے

انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے

جھاڑے کے موسم کے گزرنے کا انتظار ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے رکنے کا انتظار ہے

 اب تو بس ہمارے ملن کا انتظار ہے
وقت کے یکسر بدلنے کا انتظار ہے

انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے

No comments:

Post a Comment