Saturday 17 September 2016

تمنا

تمنا

                   SAd


تمنا تمنا ہی رہ گئی
آرزو ندیہ میں بہ گئی

جب اس کی اداسی دکھی
تو نظر وہیں ٹھہر گئی

نظر سے نظر کیا ملی
عقل وہیں بہک گئی

بات سے بات چلی تو
شام وہیں مہک گئی

گھڑی دو گھڑی شام ڈھلی تو
جان وہیں بہل گئی

پھر ملاقات سے ملاقات کیا بڑھی تو
جوانی وہیں سہل گئی

ساںس سے ساںس کیا ملی
دیوانگی وہیں سحر گئی

جب تلک آنکھ کھلی تو
آبرو وہیں دھک گئی

پس نظریں چرا کر
ادھر ادھر بھٹکنے لگا

فقط خود ہی خود کو
خودی میں مگن رکھنے لگا

اور وہ بیچاری جانی انجانی
کبھی کچھ سمجھ نہ سکی

آخر کیا غلطی کی
جو ملامت بھی نہ کر سکی

سوچتی سوچتی
ذرا بھی تسلی نہ کر سکی

فقط قلم اٹھاتے ہی
حال دل بیاں نہ کرسکی

لاکھ تدبیریں کیں مگر
چٹھی رقیب تک پہنچ نہ سکی

شاید اسی لئے زندگی کی گاڑی
کبھی آگے بڑھ ہی نہ سکی

محبت جو کبھی پنپنی تھی
سرے سے پنپ ہی نہ سکی


No comments:

Post a Comment