Monday 21 November 2016

سب ویران ہے

سب ویران ہے
                                          SAd





یہ محفلیں بھی ویران ہیں
یہ چاہتیں بھی ویران ہیں

یہ مستیاں، یہ شوخیاں
یہ لذتیں، یہ سرگوشیاں

یہ راحتیں، یہ حماقتیں
یہ آرائیشیں، یہ نوازشیں 

یہ شوخ چنچل آسائشیں
یہ مخملی زیبائشیں

سب ویران ہے


سب ویران ہے

یہ طنز و مزاح کی مجلسیں
یہ ناز نخرے کی رنجشیں

یہ گھر گھرستی کی لغزشیں
یہ روز روز کی جنبشیں

یہ سترنگی سی شنائیاں
یہ یہ بدرنگی سی رہائیاں

سب ویران ہے


سب ویران ہے

یہ دیکھا دیکھی کی بناوٹیں
یہ روز مرہ کی سجاوٹیں

یہ حسیں حسیں رفاقتیں
یہ دل کش دل نشیں ستائیشیں

یہ خود غرضی کی تنہائیاں
یہ  من مرضی کی دہائیاں

سب ویران ہے


سب ویران ہے

یہ دل بھی ویران ہے
یہ جاں بھی ویران ہے

یہ عشق بھی ویران ہے
 یہ سمت بھی ویران ہے

جب یہ دنیا ہی ویران ہے
تو اس کی ہر شہ بھی ویران ہے



سب ویران ہے

سب ویران ہے

چاہے ہوں پھر سونے چاندی کی بالیاں
یاں پھر شان و شوکت کی جالیاں

چاہے ہوں پھر جھوٹ موٹ کی تالیاں
یاں پھر لوٹ کھسوٹ کی ساڑھیاں

چاہے ہوں پھر لمبی لمبی گاڑیاں
یاں پھر چمکتی دھمکتی قوالیاں 

سب ویران ہے


سب ویران ہے

مجھے اس نظم کو مکمل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی اسی لئے اگر آپ میں سے کوئی اس میں کچھ تجویز کرنا چاہے تو 


خوش آمدید!

No comments:

Post a Comment