Friday 13 May 2016

دل لگی

دل لگی

                      نائیل



وہ بولے:-
 جناب! آپ کی تو دل لگی تھی

ہم بولے:-
پھر دل پر کیوں لگی تھی؟

وہ بولے:-
جو بھی تھا مگر عشق نہیں تھا

ہم بولے:-
مگر وہ مرید بھی نہیں تھا

جو بھی تھا حسیں بہت تھا
اس کا نہ ہونا غمگیں بہت تھا

جب وہ تھا مانو ایسے تھا جیسے
میں ابھی اسی وقت سب کچھ وار دوں گا

اپنے سب غم، سب پریشانیاں
اک جھٹکے میں بھلا دوں گا

بس اس کو سنوں گا اور سنتا چلا جاؤں گا
وقت کے سب پیمانے یکسر گھما دوں گا

اس کو اتنا پیار دوں گا
کہ روٹھنا تک بھلا دوں گا

مگر کیا بتاؤں کہ میں خود ہی بیوفا نکلا
میں خود اپنے ہی درد میں مبتلا نکلا

جب اس کو میری ضرورت پڑی
میں ہی دنیا سے بیزار نکلا

مگر ابھی بھی امید کا دامن تو اب بھی نہیں چھوڑا
اک خواہش نے ناتا اب بھی نہیں توڑا

اک خواہش کہ کاش وہ راضی ہو جائے
اور وہ دل پر لگی پھر سے مان جائے

سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے
وہ میرا ہنسنا وہ میرا کھیلنا سب لوٹ آئے

بس ایک بار اس کا جینا مرنا میرے سنگ ہو جائے
تنے تنہا یوں جینا بصم ہو جائے

اس کا ملنا ایک رسم ہو جائے
پھر چاہے آنکھ کا کھلنا بند ہو جائے

No comments:

Post a Comment