Sunday 6 November 2016

آشنا

آشنا
                                        نائیل



جیون سے بیزار ہم کبھی نہ تھے
درد عشق میں مبتلا ہم کبھی نہ تھے

چین سے سونا فطرت تھی ہماری
فقط بے چینی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے

سیدھی سادھی سادہ سی زندگی تھی ہماری
ارادے بلند اور نازک سی ادا تھی ہماری

نہ کچھ خاص پانے کی چاہ تھی
نہ کچھ انمول کھونے کا خواہش تھا ہماری

من موجی سے ہی تھے ہم
ہمیشہ اپنی ہی دھن میں مگن

بلکل ایسے جیسے تازگئ  حسن
شوخ چنچل رہبر سخن

گر پھر تم زندگی میں آئے
سنگ باد سبا کا پیام لائے

ناز و نکھروں سے پلے
زمانے بھر کے رنگ مانگ لائے

آئے تو کسی تیز گھٹا کی مانند آئے
ایسے جیسے چند بوندیں ادھار لائے

کالے بادلوں کی طرح
صحرا میں امید طوفاں لائے

مگر بوقت ضرورت برسنا بھول آئے
پھر بھی بے وفا ہم ہی کہلائے

سنو! اگر سن سکو تو
تم سے ملنا قسمت تھی

تم کو چاہنا ضرورت تھی ہماری
تم سے مل کر بکھرنا عادت تھی ہماری

مگر تم سے بچھڑنا تباہی تھی ہماری
پھر بچھڑ کر سمٹنا مجبوری تھی ہماری

مگر بیوفائی کرنا
نہیں نہیں ہرگز نہیں

بے وفائی کرنا کبھی نہیں تھی عادت ہماری
کیوں کہ بیوفائی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے

No comments:

Post a Comment