Sunday 23 February 2014

مائیں

مائیں

                                         SAd



لرز اٹھا، کانپ اٹھا، تڑپ اٹھا چلا اٹھا 
 دیکھا جو اک ماں کو اپنی انا پوری کرتے 

دیکھا جو اک ماں کو بلکتے بچے کو یوں پھینکتے

 دیکھا جو اک ماں کو تڑپتے لال کو یوں چھوڑ کر جاتے

  دیکھا جو اک ماں کو اپنے شیر خوار بچے سے جدا ہوتے
 دیکھا جو یہ منظر اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے




 سنا تھا کہ مائیں راتوں کو اپنے لال کے سرہانے بیٹھتی تھیں
 لوری سناتی تھیں، دلاسے دیتی تھیں، خواب سجاتی تھیں 



اپنی اولاد کے آرام  کی خاطر
 خود بے آرام ہو جاتی تھیں 
 ساری ساری رات جاگ کر آنکھوں میں صورت بساتی تھیں 

ارے میری تو جان ہی نکل گئی اپنے دور کی ماؤں کو دیکھ کر

 شرمندگی سے  ڈوب مرا اس منظر کو ان نگاہوں سے دیکھ کر 



 دیکھی اک اور ماں کی محبت اپنے لخت جگر کی خاطر
 تھا وہ معصوم بے بس، لاچار، شدت مرض سے دو چار

تھی وہ تو ماں بھی آزاد خیال اور ہوشیار باش

آخر نکل ہی پڑے معصوم کی آنکھ دو آنسو 

بلکتے بچے کا نہ تھا خود پر کوئی اختیار
درد سے تنگ آ کر آخر رو ہی پڑا لاچار

پھر کیا تھا دے دیا اک تھپڑ بے اختیار
کلیجہ آ گیا منہ کو کیا کرتا اب انتظار

نہ کچھ سوجھ سکا، نہ کچھ سمجھ سکا
رو دیا زوروں سے بیچارہ آخر بے شمار 

 چلا اٹھا میں بھی اور میرا ضمیر پروانہ
اٹھ گیا بھروسہ دنیا سے، ہو گیا میں بیگانہ




نکلازبان سے کہ اب تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے 

ارے جس کی ماں ایسی، اس کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے

شاید یہ سب کچھ تو تیری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا نائیل
آخر دنیا میں کیا ہو رہا ہے یہ کس کو جاننے کی پڑی ہے 

No comments:

Post a Comment