Tuesday 4 February 2014

داستان

داستان 

                             نائیل

 

یارو! کیا سنایئں داستان اپنی
ہاتھوں میں تھا تبرک اور ماتھے پر بل 

راضی تو نہ تھے مگر ثواب کی خاطر چل پڑے
مگر اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس طرح مل جائیگا

ہاں تھوڑی بہت آس تو تھی لیکن!
وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھی

چند دن پہلے جب وہ باہر آئی تھی
اس کی چال ذرا نہ بہائی تھی

ہوا کچھ یوں کہ وہ باہر آئی بے پردہ ، بے باک 
اور میں تھا ہاتھ میں لئے گندم کی بوری موٹر سائیکل پر سوار


بس جانے انجانے دل کو چبھی وہ 
شاید دل میں سوئی کی طرح دکھی وہ 

خیر وہ بات تو ہو گئی تھی کچ پرانی
 کسی امید پر تو تھی زندگی کی روانی
خیر اجڑے پھجرے بوجھل قدم لئے
بلآخر چڑھ گئے ان کی دہلیز

گر گھنٹی  تو دی تھی بجا اور کرنے لگے انتظار 
اچانک سماں بدلہ،  پروانہ اجلا، لو جی آگئی بہار 

ان کے قدموں کی آہٹ سے جھکی ہماری  نظر 
کھلا جو دروازہ اٹھی نظر، جھکی نظر 


ہو گئے اوسان خطا پڑتے ہی پہلی نظر 
گیلے تھے بال اور بھڑکیلے تھے لباس 

آئی مسکان چہرے پر ان کے دیکھ کر ہم کو 
لاۓ جو تھے ہم کھیر انکے گھر کو

فقط بھول گئے چہرہ دیکھ کر
کہ کس لئے آئے تھے نائیل!

سلام کا کرنا تھا کہ ہوش آیا
 ورنہ سورج غروب ہوتے ہوتے اپنا کام دیکھا جاتا 

کانپتے کانپتے بڑھائی پلیٹ جو انکی طرف 
نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے جھپٹ لی 

وہ چلی  گئی اندر تنہا چھوڑ  کر ہمیں 

ہم! ہم تو بس دیدار کی چاہ میں سکتے میں رہ گئے


کرتے ہوۓ انتظار دل میں لڈو لگے پھوٹنے
واپسی جب ماں کے ساتھ ہوئی، خواب لگے ٹوٹنے

ہم نے پھر جھکی نظروں سے کیا سلام 
بس پھر ہوں ہاں میں ہی ہوا وسلام

پوچھا بیٹا کہاں سے آئے ہو، پیغام خوشی کا لائے ہو 
بس منہ سے اتنا ہی نکل سکا   "پروفیسرکے گھر سے"

اب تو کچھ کہنے سننے کی ہمت اور نہ تھی
بس اشارے سے ہی گھر کی دہلیز دکھلا دی

جی بھر کر دیکھنا تو اب دور کی بات تھی 
داروغہ جو ساتھ لائی تو دل کی بات دل میں ہی رہنا تھی 

آ گے کیا سناؤں اس ٹوٹے دل کا حال
لئے برتن اور بس گھر کو چل دیے 

مایوسی مایوسی سے ہی واپس ہو لئے
دل کے ارمان دل میں ہی گھول لئے

نائیل!! ابھی تو بس ہم ہلے ہی تھے دیکھ  کر معصومیت انکی
ابھی تو غرور دیکھنا باقی تھا، ڈھیر ہونا باقی تھا 


نہ تب کوئی امید تھی ، نہ اب کوئی ہے 
جو رب نے لکھ دیا نصیب میں، وہی سب کچھ ہے

مگر دیکھ کر دروازہ پھر سے داستان لکھنے کا  دل چاہتا ہے
کمبخت پھر سے وہ پل جینے کو یہ دل چاہتا ہے 

No comments:

Post a Comment