Wednesday 12 February 2014

پھر سے

پھر سے

            نائیل 





گزرا جو اس گلی سے
ہوئی یاد تازہ پھر سے

کھلا ایک پھول خوشی سے
ٹوٹا یہ دل پھر سے



امید سی ہوئی پیدا من میں

اک خواہش جو ابھری پھر سے



لگا کھڑے ہو تم اپنی چوکھٹ پر 

کرتے ہوۓ ہمارا انتظار پھر سے




جیسے ہی پڑی تمہاری نظر مجھ پہ
 لگے دل ہی دل میں مچلنے پھر سے
  

لو پھر چرائیں نظریں ہم سے

جھک گئی ہماری نظریں پھر سے 


اٹھایا جو سر تم نے تکبر سے
لوٹ لیا! لوٹ لیا! یہ جہاں پھر سے


فقط ہم مسکرا ہی دیے عاجزی سے
یونہی سر جھکائے چل دیے پھرسے

تھا جو فاصلہ چار قدم کا
 بڑھتا ہی چلا گیا پھرسے


الجھ گئے ہم تو ایک نئی الجھن میں
کھو گیا چین، کھو گیا سکون پھرسے

نہ  آئے ہم کبھی لوٹ کر
رہ گئے یاد کرتے پھرسے

پر یہ تو تھا شاید ماضی بعید
 معلوم تھا جو کافی مدت سے

نہیں تھے تم آج اپنی چوکھٹ پر
کیوںکہ گزرنا تھا ہم کو پھرسے


سن! میرے خالق نے مجھے صبر دیا اپنی قدرت سے
میں کبھی نہیں مرتا تیری جدائی کے غم سے

وہی زنگی دیتا ہے، وہی زندگی لیتا  ہے

اسی نے جان بخشی، دیا سکون پھر سے




اب اس غزل کے بارے میں کیا تبصرہ کروں؟ اب اپنے بارے میں کیا لکھوں؟ سب کچھ تو سامنے ہے نہ کچھ چھپا ہوا ہے اور نہ ہی کچھ چھپا سکتا ہوں. بس اک ہی ذات سب کا پردہ رکھتی ہے اور وہ میرے خالق کی ذات ہے.

No comments:

Post a Comment