Friday 14 March 2014

سو گیا انسان

سو گیا انسان        

 SAd special                        





سو گیا انسان
ہو گیا بےایمان
بیچا جو ایمان

تو لوٹ گیا پاکستان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

بٹا ہے یہ مان
چاہے بلوچی ہو یا پٹھان
لی ہے اسنے ٹھان
ہوگا بس لہولہان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان 

کیا کہوں میرے جوان
ہو گیا تو عشق معشوقی میں قربان
 جب لگے گی سردھڑ کی بازی
تو کیا دے گا تو اپنی جان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

ہے میڈیا تیری آنکھیں
اور تیرے کان
جو سمجھ گیا تو
تو ہے بڑا سیاست دان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

لگا ہے نعرہ کریں گے تعلیم عام
جب سکھائیں گے ڈانس
اور گائیں گے گیت مہان
تو کیا کرینگے یہ نام
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان


ہے نیا دور نئی کمان
دے دے اس کو تو سارا سامان 
جب سیکھے گی چیٹنگ
کیسے پلے گی ننھی جان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

بھولی بھالی ہے عوام
چنتی ہے اپنا حکمران
جب رکھتی ہے برادری کی آن
تو کیا چڑھے گا ملک پروان  
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

کیا بتاؤں تم کو داستان
ہر کوئی بنتا ہے بڑا باایمان
کرتا ہے خود دو نمبری
اور کوستا ہے حکمران
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

ہے قائد کا فرمان
کام، کام اور بس کام
 رکھا ہے قوم نے ایسا مان
ہوئے سب فرست سے بے آرام
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

بینکاری کا یہ نظام
ہیں اس سے سب پریشان 
پستے رہیں گے سود کی چکی میں
جب تک لاتے نہیں نیا نظام
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

ہے کمپنی کی ہر چیز ران
چاہے پتی ہو یا کان
لوٹ! لوٹ! جیسے حق ہے تیرا
کر دے تو اس کو گنجان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

دیا جو چندہ تو کردیا بڑا احسان
جتا جتا کے بتا سب کو اپنی اونچی شان
بتا آخر کیا چاہتا ہے اب تو
کہے تو سوالی پر دوں تانگ
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

سنا تھا کے صفائی ہے نصف ایمان
تھوک تھوک بنا دیا سڑکوں کو پاندان
وطن کا نام تو پاک تھا
نجانے کیوں بنا دیا اسکو کوڑا دان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

لو پھر آ گیا رمضان
بڑھا دیے سارے دام
رکھا جو روزہ اس ماہ صیام
بھول گیا باقی سب کام سرعام
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان


اک ہے بھائی طالبان
لیتا ہے مسجد میں جان
چڑھا کے بلی مسلمانوں کی
پورا کرتا ہے اپنا ایمان  
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

ہے میری فوج مہان
اونچا تھا اسکا نام
لگی جو لت حکومت کی
کیا رہ گئی اسکی شان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

سنبھالی ہے چند لوگوں نے کمان
 نفرت اور انتشار پھیلانا ہےانکا کام
 ہیں تو ویسے پیسے کے پجاری
نجانے کیوں لیتے ہیں مذہب کا نام
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

مسجد سے بلند ہوئی اذان
دیا نہ ذرا بھی دیہان
 سن سن کر ناچ گانا
بنتا ہے سچا مسلمان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

نہیں تھا ڈوبا تو تھا انجان
لوگوں کی باتیں اور انکے احکام 
پھر جو رکھا جو قدم سرعام
 کھل گئے سارے راز سنسان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

ہے یہ دنیا ایک امتحان
عاجزی اور انکساری کامیابی کا نشان   
بغض، کینہ اور جھوٹے گمان
آخر کیوں چلتا ہے سینہ تان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

اتارا جو رب نے فرقان
کر دیا سب کچھ بیان
پھر کیوں لڑتا ہے بتا
 کیوں نہیں سمجھتا لالے کی جان  
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

اب تو سمجھ جا نادان
کب تک رہے گا تو مہمان
لے پھر سے ہوش کے ناخن انام
چل بن جا جانور سے انسان
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان

ہے وہ ہستی عالیشان
ہے وہ آخر رحمان
جھکا دیا جو سر سجدے میں
بس ہو گیا آخرت کا سامان 
سو گیا انسان، ہو گیا بےایمان


   میں نے اس نظم میں اپنی قوم کی حالت پر روشنی ڈالنے کی کوہشش کی ہے. یہ بتایا ہے کے ہمارے قول اور فعل میں تضاد ہے. یہ دیکھنے میں تو سیدھی سادہی ہے پر اسکو سمجنے میں آپ کو عرصہ لگے گا. اسکو جتنے بار پرہیں گے اک نیی چیز سامنے ہو گی. یہ پہلی نظام ہے میری جس کو میں نے پندرہ منٹ کا ٹائم فریم سامنے رکھ کر نہیں لکھا. اس سے پہلی جتنی بھی نظمیں ، غزلیں اپ نے دیکھی وہ ١٥ سے ٢٠ منٹ مے لکھی گی ہے اور کاش تو ١٥ منٹ مے پکترے سمیت آپ کے سامنے تھی. میں ابھی سیکھ رہا ہوں یہ تو بس آغاز ہے.
   
یہ میری آخری نظام/غزل ہے جون تک ک لئے. اس عرصے ک دوران میں مصروف ہونگا اور اسی لئے گوگل پر آن لائن نہیں ہو سکون گا. جیسا کے آپ جانتے ہیں میں اکاؤنٹنٹ بن رہا ہوں اور جلد سے جلد اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں  کہانیاں لکھ نہیں پا رہا. خیر انشاءاللہ جون کے بعد یہ سفر یہیں سے شروع ہو گا. تب تک کے لئے الله حافظ ! 

No comments:

Post a Comment