Monday 10 March 2014

جو ہمیں عشق ہوا

جو ہمیں عشق ہوا 

                 نائیل 



بھولا نہیں تھا ابھی ساون کی گھٹا 
ہوا نہیں تھا ابھی کسی پر بھی فدا 

رنگوں سے بھرا تھا میرا جہاں 
پھیلی تھی ہر سو سکوں کی فضا

لگتا تھا کے چھو لوں گا یہ آسمان 
تھے ارادے بلند اور نہ کوئی گواہ 

شہزادوں کی طرح سینہ تان کر چلتا تھا
سر تھا کہ جھکتا تھا بس اک ہی جگہ 

جو مجھے عشق ہوا تو ہو گیا میں بھی رسوا 
لگا چھوٹ جائے گا یہ جہاں آج ابھی اسی جگہ 

سوچا میں ساتھ رہوں گا تمھارے ہر پل، ہر لمحہ   
سنوں گا تم کو، سمجھوں گا تم کو، چاہوں گا ہر طرح

چاہے کچھ بھی ہو جائے تمھیں پا کر رہوں گا
چلی جائے گی جو یہ جان تو کیا کروںگا پرواہ

جان جوکھن اٹھا کر گزرتا تھا تمہاری چوکھٹ سے
اب ہوگا دیدار، اب ہو گا دیدار، اس بار تو پکا

نہ ہوا دیدار، نہ ملے تم، نہ ہی چھوٹ سکا یہ جہاں
نکلے سب دعوے کھوکھلے کسی افسانے کی طرح

نائیل! چل مان لیا کے تو اس کو پا لیتا 
پر کیا کبھی تیرا ضمیر تجھے معاف کرتا

چھوڑ یہ عشق معشوقی تیرے بس کی بات نہیں
 تو تو بس لے نام خدا کا، کرتا رہ بیاں تقویٰ  

No comments:

Post a Comment