Sunday 5 July 2015

ہتھیلی

ہتھیلی

                        SAd





بیٹھے بیٹھے پڑ ہی گئی نظر ہتھیلی پر
دیکھتے دیکھتے ٹک ہی گئی نظر ہتھیلی پر

خالی خالی سی تھی اپنی زندگی پر
اسی ریل پیل میں ڈھیلا بھی نہ ہتھیلی پر

ہنسی چھوٹ رہی تھی اپنی مفلسی پر
کر بھی کیا سکتے تھے اپنی بےبسی پر

ایسا کوئی خاص قصوربھی نہیں تھا پر
 کمانے کا کوئی ذمہ بھی نہیں تھا ہم پر

لگا دیا تھا ہمیں تو پڑھائی کی دگڑھ پر
فقط نان و نفقہ کا سارا ذمہ تھا ہمارے والدین پر

ہٹا کٹا، عاقل بالغ، سب کچھ تو تھا پر
فقط کچھ بھی تو نہیں تھا ہتھیلی پر

کہتے تھے کہ یہی ریت رواج ہیں ان راہوں پر
کون سمجھاتا کہ یہ تو سراسر ظلم ہے جوانوں پر

آخر کب سے پلو سے باندھ کر رکھا ہے ہم سب کو پر
وقت کا پیمانہ مخصوص ہے نہیں روکتا کسی جگہ پر

ساری محنت لگا دیتے ہے ان کتابوں پر
مگر کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ہتھیلی پر



گزر جاتی ہےہماری آدھی زندگی پر
کوئی سرے سے بوجھ نہیں ہوتا ہم پر

پستا رہ جاتا اکیلا کمانے والا اسی آس پر
ایک دن تو ملے گا سکون اسی روش پر

رہ جاتا ہے پھر شاہین زمانے کے رحم و کرم پر
پر تو کاٹ دیتے ہیں لگاتا ہے امید پھر سے اگنے پر

کچھ اسی کو زندگی کہہ کر چل پڑتے ہیں اس راہ پر
جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی کسی بھی موڑ پر

اور پھر کچھ مجبور ہوجاتے ہیں ایسے کاموں پر
کرتا رہتا ہے ملامت ضمیر ساری زندگی جن پر

رہ گئی عشق معشوقی وہ تو چھوڑ دی ہے افسانوں پر
جو دکھتی ہے اس کا دار و مدار ہے نفسانی خواہشوں پر

آخر سب الزام کیوں ڈالتے رہتے ہیں زمانے پر
کرتوت تو ہمارے ہیں تو کیسا صلا آزمانے پر

بڑھو! چلو بڑھو! کرو! کچھ تو کرو اس ضمن پر
کہیں یہ نہ ہو پھر سب تکتے ہی رہ جایئں ہتھیلی پر

No comments:

Post a Comment