Wednesday 18 June 2014

دل نہیں لگتا

دل نہیں لگتا 

                      نائیل


  
دل نہیں لگتا، جان جلتی ہے
جب بھی پھولوں کی پتیوں سے تیرا نام لکھتا ہوں

چین نہیں آتا، دل دکھتا ہے
جب بھی تجھ کو یاد کرنے کی آرائش کرتا ہوں

کلیوں کی خوشبو بھی ماند پڑتی ہے
جب بھی تجھ کو پانے کی سازش کرتا ہوں

تنہا! نجانے کیوں تنہا رہ جاتا ہوں
جب بھی تجھ کو چھونے کی کوشش کرتا ہوں

ہر نگر ہر ڈگر مارا مارا پھرتا ہوں
جب بھی تیرے آستانے کی سفارش کرتا ہوں



کیا شہر! کیا محلہ! ہر جگہ بھول جاتا ہوں
جب بھی تجھ سے ملنے کی خواہش کرتا ہوں

سارے گلے شکوے یکسر بھول جاتا ہوں
جب بھی فضاؤں سے تیری باتیں کرتا ہوں


  

بس یوںہی سر راہ کاغذ قلم ڈھونڈنے لگتا ہوں
جب بھی تیری غزل کی زیبائش کرتا ہوں

آخر میں خود ہی رب کا شکر ادا کرنے لگتا ہوں
جب بھی تجھ سے بچھڑنے کا قصہ تمام کرتا ہوں


 زندگی میں پہلی بار کسی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کچھ لکھا تھا اور  سے اس میں تھوڑی سی اردگرد کی منظر کشی کرنے کی کوہشش کی ہے. اصل میں وقت بوہت کم تھا اور عجیب بھی لگ رہا تھا اسی جلدی جلدی میں لکھ دی. امید ہے آپ کو پسند آۓ گی .

No comments:

Post a Comment