Saturday 7 April 2018

قصہ

قصہ
                             نائیل




ہائے! کیا سناؤں
اس پری کا قصّہ

جس کی اک مسکان سے
میری صبح کھل جاتی ہے

جس کے آنے سے
میری سانس رک جاتی ہے

نجانے کتنا روشن ہے
اس کا چہرہ

جو اسکی اک جھلک سے
مجھے راحت مل جاتی ہے

بڑی مدت سے چاہ ہے
اس کو پانے کی

مگر دقت بس اتنی سی ہے
کہ چاہ کر بھی اس کو پا نہیں سکتے

دل لگا کر بھی
اس کو بتا نہیں سکتے

شاید اس کو معلوم بھی ہو
مگر پھر بھی کبھی جتا نہیں سکتے

اکثر نظریں ملاتے، نظریں چراتے
ہم پکڑے جاتے ہیں

آتے جاتے سامنے
اسی کو پاتے ہیں

کبھی سوچتے سوچتے تھم جاتے ہیں
کبھی کہتے کہتے لب سی جاتے ہیں

شاید اسلئے کہ ہم سہم گئے ہیں
غم معارفت میں بہک گئے ہیں

اور کچھ زمانے کے اصول بھی
ہماری چاہت کی زنجیر بن گئے ہیں

کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا
جواب سننے کو کان ترس گئے ہیں

دنیاوی قانون ضابطے انسان بناتے ہیں
کیا انکو بدلنے سے انسان دھک گئے ہیں

قصہ مختصر سہی مگر جامع ہے
کیونکہ زندگی کا مقصد واضح ہے

پھر کیوں ہم پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہیں
اور ہمارے ضمیر ہماری طرح کاہل ہیں

کچھ بدلنا ہے تو خود کو بدلو
سوچ بدلو، سماج بدلو

ورنہ خود بدلے بغیر
دنیا بدلنا بیکار ہے

کیونکہ ہماری دنیا ہم سے شروع
اور ہم پر ہی ختم ہے

ہم ہیں تو ہماری دنیا ہے
اگر ہم ہی نہیں تو یہ سب بیاباں ہے

اور" ہم" کیا ہوں؟
ہم بندہ خدا وند ہیں، بندہ خدا وند ہیں....

No comments:

Post a Comment