Saturday 8 July 2017

اسطور

اسطور

                          SAd



رنگ تھا، نور تھا یاں دل کا فتور تھا
جو بھی تھا، عشق کا عروج تھا

ہجر قسمت تھی، کس کا کیا قصور تھا
دل کش، دیدہ زیب اس کا غرور تھا

شاید میں بھی تھوڑا مغرور تھا
ورنہ آخری بار ملنا کسے نا منظور تھا

گر رویا کم مگر تڑپا بہت
اس کی یاد میں جو مخمور تھا

خدا ہی جانے کون کہاں منصور تھا
حالانکہ صحبت میں خاموش رہنا دستور تھا

کہتے تھے ملا مسجد میں اور عبدللہ مجلس میں
گویا نماز میں خالی امام معمور تھا

یوں تو چپ سادھ لینا کسے منظور تھا
بیچارہ سماج کی زنجیروں میں تنور تھا

چنگیز خان! وہ کتنا غیور تھا
مگر وہ بھی خواہشات کے آگے مجبور تھا

اس آگ کی تپش کتنی ہوگی
فقیرابھی اسی بات پر مدور تھا

گر خاطب اپنے خطاب میں مسرور تھا
مگر سامع گھٹنوں کے درد میں چور چور تھا

بلا شبہ موضوع بڑا مرغوب تھا
مگر صبح کا ظہور ظہور تھا

قصہ بستی بستی مشہور تھا
اناڑی ہر جگہ مفرور تھا

شاید میرا قلم کچھ دن سکوت تھا
مگر میرا علم ہمیشہ اسطور تھا

No comments:

Post a Comment