Wednesday 11 December 2013

خاموشی

  خاموشی (2.0)

                 نائیل


 خاموشی سی تھی جہاں میں
بے چینی سی تھی دل میں

بے چین دل کے خاموش جہاں میں 
 تم نجانے کہاں سے آگئے

آ گئے تو ٹھیک مگر

وہاں گھر ہی بنا گئے

پہلے پہل تو کوئی بات نہ ہوئی
پھر مجبوری میں پہلی دفعہ بات ہوئی

پھر بات سے باتیں چل پڑیں

باتوں سے ملاقاتیں چل پڑیں

 اور وہ ملاقاتوں کے پل بھی
کچھ عجیب سے تھے

تڑپ بھی تھی ان میں
اور اک ان چاہا احساس بھی

گر چمن بھرا ہوتا تھا سیکڑوں انسانوں سے
مگر ہم تم ایسے تھے جیسے تنہائی میں

دوری جو کبھی دو گز سے زیادہ نہ تھی
ہزار میل سے بھی زیادہ محسوس ہوتی تھی

نظروں کے وار دونوں طرف سے جاری ہوتے تھے
شاید بے خبری کے دعوے جھوٹے معلوم ہوتے تھے

اکثر تمہاری ناراضگی پھر خاموشی چبھتی تھی
میری ننھی سی جاں بہت دکھا کرتی تھی

تمہارا جنون سا پیدا ہونے لگا تھا
کچھ کہنے سننے کا من ہونے لگا تھا

اکثر ڈر کے مارے ہاتھ پاؤں کانپ جاتے تھے
فقط ملزم خود کو ہی ٹھہراتے جاتے تھے

پھر اچانک تاریک راہ میں اک آواز آئی
آواز جس نے زندگی ہی بدل دی

آواز کیا ایک سوال تھا بس

سوال کہ کیا تم بھی ایسے نکلے

ایسا سوال جس کا کوئی جواب نہ تھا

ایسا جواب جو رحمت کا طلبگار نہ تھا

پھر ہم تم سے چھپنے لگ گئے

ادھر ادھر کے بہانوں میں بٹنے لگ گئے

آہستہ آہستہ دوری بڑھ گئی
ہماری تشنگی مدھم پڑگی

تم کسی اور کے ہو گئے

ہم سے دور کسی دوسرے دیس چلے گئے

ہم تنہا تھے تنہا ہی رہ گئے

اک سوال کا جواب سہتے رہ گئے



آپ کو شاید معلوم نہ ہو مگر "خاموشی" میری تیسری پوسٹ تھی blogger پر اور میری دوسری کاوش تھی +G پر. اس کو لکھنے کے بعد مجھے بہت حوصلہ ملا تھا اور میں ایک کے بعد ایک غزل اور نظم لکھتا گیا. جو "خاموشی" غزل آپ پڑھ رہے ہیں یہ اصلی والی سے کافی مختلف ہے. پچھلے والی رومن اردو میں لکھی تھی اور یہ اردو میں ہے اور اس میں کافی تبدیلیاں بھی کی ہیں. امید ہے کہ پہلا اعتراض یہی ہو کہ یہ بہت لمبی ہے اس کو پڑھے کون؟

آپ لوگوں کو الله خوش رکھے 
آمین!

No comments:

Post a Comment