Thursday, 29 December 2016
Friday, 2 December 2016
آمد
آمد
نائیل
آج کل تو چاند بھی سج رہا ہے
لگتا ہے ربیع الاول اسے بھی جچ رہا ہے
نبی کی آمد تھی ہی اک کرشمہ
کہ سارا جہاں آج تلک رج رہا ہے
نبی کی آمد تھی ہی اک کرشمہ
کہ سارا جہاں آج تلک رج رہا ہے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات، ان کی زندگی، ان کا اخلاق اور ان کا کردار ساری مخلوق کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے. آپ کی سنت پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے.
Monday, 21 November 2016
سب ویران ہے
سب ویران ہے
SAd
یہ محفلیں بھی ویران ہیں
یہ چاہتیں بھی ویران ہیں
یہ مستیاں، یہ شوخیاں
یہ لذتیں، یہ سرگوشیاں
یہ راحتیں، یہ حماقتیں
یہ آرائیشیں، یہ نوازشیں
یہ شوخ چنچل آسائشیں
یہ مخملی زیبائشیں
سب ویران ہے
سب ویران ہے
یہ طنز و مزاح کی مجلسیں
یہ ناز نخرے کی رنجشیں
یہ گھر گھرستی کی لغزشیں
یہ روز روز کی جنبشیں
یہ سترنگی سی شنائیاں
یہ یہ بدرنگی سی رہائیاں
سب ویران ہے
سب ویران ہے
یہ دیکھا دیکھی کی بناوٹیں
یہ روز مرہ کی سجاوٹیں
یہ حسیں حسیں رفاقتیں
یہ دل کش دل نشیں ستائیشیں
یہ خود غرضی کی تنہائیاں
یہ من مرضی کی دہائیاں
سب ویران ہے
سب ویران ہے
یہ دل بھی ویران ہے
یہ جاں بھی ویران ہے
یہ عشق بھی ویران ہے
یہ سمت بھی ویران ہے
جب یہ دنیا ہی ویران ہے
تو اس کی ہر شہ بھی ویران ہے
سب ویران ہے
سب ویران ہے
چاہے ہوں پھر سونے چاندی کی بالیاں
یاں پھر شان و شوکت کی جالیاں
چاہے ہوں پھر جھوٹ موٹ کی تالیاں
یاں پھر لوٹ کھسوٹ کی ساڑھیاں
چاہے ہوں پھر لمبی لمبی گاڑیاں
یاں پھر چمکتی دھمکتی قوالیاں
سب ویران ہے
سب ویران ہے
مجھے اس نظم کو مکمل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی اسی لئے اگر آپ میں سے کوئی اس میں کچھ تجویز کرنا چاہے تو
خوش آمدید!
Saturday, 12 November 2016
لو لگا بیٹھی تھی
لو لگا بیٹھی تھی
SAd
شدت غم میں نڈھال بیٹھی تھی
جوانی اپنی گزار بیٹھی تھی
ساری عمر نوک جھوک کرتی
زندگی ٹصل میں اجاڑ بیٹھی تھی
مگر کل رات سجدے میں گرتے ہی
سایہ سائیں کا مانگ بیٹھی تھی
ہر وقت کوسنا فطرت تھی جسکی
آج ناک رگھڑھتی منت سماجت کربیٹھی تھی
سائیں کی خاطر جھولی پھیلائے
بیش بہا آنسو بہا بیٹھی تھی
بستر مرگ پر لیٹا جچتا نہیں تھا اسکو
نجانے کتنے جوڑے پہنا بیٹھی تھی
دن رات خدمت کرتی اب تھکتی نہ تھی
نجانے کتنی کوتاہی پہلے دکھا بیٹھی تھی
بال بچوں اور رشتہ داروں پر بڑا برا ناز تھا
آج ان سب کو بھی آزما بیٹھی تھی
ساتھ سائیں کا، سایہ سائیں کا کیا چیز ہے
تلخ حقیقت دیر سے سہی مگر جان بیٹھی تھی
سردی، گرمی، دھوپ، چھاؤں، پتجھڑ، ساون
گر سارے موسم یکسر گزار بیٹھی تھی
خیر دن گزرتے گئے، شامیں ڈھلتی گئیں
ساتھ سائیں کا چھوٹ گیا، راز تنہائی کا ٹوٹ گیا
بچ گیا تو اک خالی کمرہ
وہ بھی ٹوٹا پھوٹا
اپنی حالت زار دیکھ کر
اپنی ذات کو ہی گنوا بیٹھی تھی
سونا سونا آہستہ آہستہ وقت جو گزرا
تنہا جینا خود کو سکھا بیٹھی تھی
کل تک جو نماز تک بھی نہ پڑھتی تھی
آج وقت سے پہلے ہی مسلہ بچھا بیٹھی تھی
تسبیح ہاتھوں میں پکڑے بس اب الله الله کرتی تھی
دیر سے سہی مگر رب سے لو لگا بیٹھی تھی
بہت عرصے بعد کوئی نظم لکھتے ہوئے مجھے اتنا لطف آیا ہے. امید کرتا ہوں آپ کو بھی پسند آئے گی.
شکریہ !!!
ا
Sunday, 6 November 2016
آشنا
درد عشق میں مبتلا ہم کبھی نہ تھے
چین سے سونا فطرت تھی ہماری
فقط بے چینی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے
سیدھی سادھی سادہ سی زندگی تھی ہماری
ارادے بلند اور نازک سی ادا تھی ہماری
نہ کچھ خاص پانے کی چاہ تھی
نہ کچھ انمول کھونے کا خواہش تھا ہماری
من موجی سے ہی تھے ہم
ہمیشہ اپنی ہی دھن میں مگن
بلکل ایسے جیسے تازگئ حسن
بلکل ایسے جیسے تازگئ حسن
شوخ چنچل رہبر سخن
گر پھر تم زندگی میں آئے
سنگ باد سبا کا پیام لائے
ناز و نکھروں سے پلے
زمانے بھر کے رنگ مانگ لائے
آئے تو کسی تیز گھٹا کی مانند آئے
ایسے جیسے چند بوندیں ادھار لائے
کالے بادلوں کی طرح
صحرا میں امید طوفاں لائے
مگر بوقت ضرورت برسنا بھول آئے
پھر بھی بے وفا ہم ہی کہلائے
سنو! اگر سن سکو تو
تم سے ملنا قسمت تھی
تم کو چاہنا ضرورت تھی ہماری
تم سے مل کر بکھرنا عادت تھی ہماری
مگر تم سے بچھڑنا تباہی تھی ہماری
پھر بچھڑ کر سمٹنا مجبوری تھی ہماری
مگر بیوفائی کرنا
نہیں نہیں ہرگز نہیں
بے وفائی کرنا کبھی نہیں تھی عادت ہماری
کیوں کہ بیوفائی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے
Sunday, 9 October 2016
پچھتانا
بلا عذر دل دکھانے کی بات کرتے ہیں
بلا مقصد آگ لگانے کی بات کرتے ہیں
زمین میں ایسے دندناتے ہیں
جیسے ان کے باپ کی جاگیر ہو
اور کوئی راہگیر ایسے
جیسے ان کی جاگیر میں کمی کمیں ہو
مگر کمی کمیں کی بھی زندگی ہے
اس کی بھی کوئی عزت ہے
مگر ہم تو بے حس لوگ ہیں
بلکل جذبات احساسات سے عاری لوگ ہیں
خیر زندگی کا تو بس اتنا ہی فسانہ ہے
خالی ہاتھ آنا اور خالی ہاتھ جانا ہے
یہ رعب یہ دبدبہ کس کام آنا ہے
بس گناہ گار ہی خود کو کہلوانا ہے
منکر نکیر نے جب قبر میں آنا ہے
چھوٹا سا سوال نامہ دوہرانا ہے
جواب صحیح ہوا یا غلط
بہت لبا عرصہ قبر میں بتانا ہے
خدا خیر کرے تو کرے
نہیں تو پچھتانا ہی پچھتانا ہے
Saturday, 24 September 2016
Saturday, 17 September 2016
تمنا
تمنا
SAd
تمنا تمنا ہی رہ گئی
آرزو ندیہ میں بہ گئی
جب اس کی اداسی دکھی
تو نظر وہیں ٹھہر گئی
نظر سے نظر کیا ملی
عقل وہیں بہک گئی
بات سے بات چلی تو
شام وہیں مہک گئی
گھڑی دو گھڑی شام ڈھلی تو
جان وہیں بہل گئی
پھر ملاقات سے ملاقات کیا بڑھی تو
جوانی وہیں سہل گئی
ساںس سے ساںس کیا ملی
دیوانگی وہیں سحر گئی
جب تلک آنکھ کھلی تو
آبرو وہیں دھک گئی
بات سے بات چلی تو
شام وہیں مہک گئی
گھڑی دو گھڑی شام ڈھلی تو
جان وہیں بہل گئی
پھر ملاقات سے ملاقات کیا بڑھی تو
جوانی وہیں سہل گئی
ساںس سے ساںس کیا ملی
دیوانگی وہیں سحر گئی
جب تلک آنکھ کھلی تو
آبرو وہیں دھک گئی
پس نظریں چرا کر
ادھر ادھر بھٹکنے لگا
ادھر ادھر بھٹکنے لگا
فقط خود ہی خود کو
خودی میں مگن رکھنے لگا
اور وہ بیچاری جانی انجانی
کبھی کچھ سمجھ نہ سکی
کبھی کچھ سمجھ نہ سکی
آخر کیا غلطی کی
جو ملامت بھی نہ کر سکی
سوچتی سوچتی
ذرا بھی تسلی نہ کر سکی
ذرا بھی تسلی نہ کر سکی
فقط قلم اٹھاتے ہی
حال دل بیاں نہ کرسکی
حال دل بیاں نہ کرسکی
لاکھ تدبیریں کیں مگر
چٹھی رقیب تک پہنچ نہ سکی
چٹھی رقیب تک پہنچ نہ سکی
شاید اسی لئے زندگی کی گاڑی
کبھی آگے بڑھ ہی نہ سکی
کبھی آگے بڑھ ہی نہ سکی
محبت جو کبھی پنپنی تھی
سرے سے پنپ ہی نہ سکی
Wednesday, 7 September 2016
Attractive
Attractive
By SAd
Damn
attractive
Looks
distractive
Is
she effective?
Probably
like a detective
Just
a little directive
Never
seems to be deceptive
Her
routine might be defective
But
she’s not captive
Nonetheless
a complete festive
Difficult
to comprehend but digestive
May
be sometimes artificially too ejective
With
fair trail too much receptive
And don’t
believe her, she’s not subjective
To
be precise innovative, and objective
Loving,
caring, and respective
Considers
everyone’s perspective
Oh
SAd! You really were a close prospective
And
she was! She was curiously perceptive
As
lively as an adjective
But
how can she be so retentive
May
be you weren’t that reflective
Strangely
far too protective
And
the defeat!!!
It
was never meant to be preventive
Now!!!
Whether the itching still active or inactive
The
retrieval looks rather proactive
So long...
Thursday, 28 July 2016
سرمئی کتاب اور گلابی گلاب
سرمئی کتاب اور گلابی گلاب
(SAd)
سرمئی کتاب اور گلابی گلاب
بھلا دونوں کا کیا تعلّق ہے
مگر وہ پھر بھی
اس گلابی گلاب کو
اس سرمئی کتاب کے
صفحہ نمبر ١٤١ میں چھپاتی تھی
اکثر شام کی چائے پیتے پیتے
وہی کتاب اٹھاتی
سینے سے لگا کر
سانسوں کے قریب لے جاتی
نجانے کس کی خوشبو تھی
جو روح میں سما جاتی
کبھی کبھی جب آنکھیں نم ہو جاتیں
تو اکثر
اسی سرمئی کتاب کا
صفحہ نمبر ١٤١ کھولتی
گھنٹوں دیکھتی رہتی
اور پھر بڑی احتیاط سے
اس گلابی گلاب کو اٹھا کر
سہلاتی رہتی تھی
جی اپنا بہلایا کرتی
مگر
انتظار تھا جو کبھی کم نہ ہوتا
کوئی تھا جو کبھی سنگ نہ ہوتا
اکثر رات کو
جب کروٹیں لیتے لیتے تھک جاتی
تو اپنے سرتاج سے
چھپتی چھپاتی
اکثر ٹی وی لاؤنج میں جاتی
سامنے شیلف پر پڑی
وہی سرمئی کتاب اٹھاتے اٹھاتے
گلابی گلاب گرا دیتی
گلاب گرتا دیکھ کر
اسکی آنکھ بھر آتی
مانو پل بھر کے لئے سانس رک سی جاتی
پھر بڑی احتیاط سے
اس گلابی گلاب کو سمیٹنے لگ جاتی
پھر اس گلابی گلاب کو میز پر رکھ کر
اس سرمئی کتاب کو اٹھاتی
پھر صفحہ نمبر ١٤١ کھول کر دیکھتی
بیش بہا آنسو بہاتی
ایک تصویر ہی تو تھی اس میں
جس کو دیکھنے کی خاطر
وہ ساری حکایات دہراتی تھی
میرا لاڈلا بچہ ہے
مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارا ہے
تڑیاں لگا لگا کر
دنیا بھر کو بتاتی تھی
ہنستا کھیلتا دیکھ کر
مسکرایا کرتی تھی
مگر اس دن صبح کو
وہ اک گلابی گلاب لئے
جب اپنی ماں کے پاس آیا
ہاتھ میں گلاب تھماتے ہی معصوم بولا
ماما اس گلاب کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں گی ناں
میں ہوں نہ ہوں اس کو سینے سے لگائی رکھیں کی ناں
مجھے ہمیشہ اپنی یادوں میں یاد رکھیں ہی ناں
بھول کر بھی نہ بھولیں گی ناں
بیچاری انجان تھی
کچھ سمجھ ہی نہ پائی
ایسے ہی دانٹ دیا
پوچھا بھی نہیں کیوں تمھیں کیا ہو جائے گا
اگر پتا ہوتا تو شاید روک ہی لیتی
سکول جانے ہی نہ دیتی
آخر کیا گناہ کیا تھا
جو ایسی سزا مل گئی
ننھی سی جان مسکراہٹ لئے
جب سکول چلی گئی
نجانے کیوں دل گھبرانے لگ گیا
رہ رہ کر وہ یاد آنے لگا
ایسے لگا کچھ برا ہوگیا
وہ ہمیشہ کے لئے دور چلا گیا
اسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی
پھر شام ہوئی ایمبولنس کی آواز سے آنکھ کھلی
ایمبولینس کی آواز تھی ہی ایسی
پریشانی اور بڑھ گئی
اور پھر جب لال کی لاش دیکھی
تو جذبات قابو میں رکھ نہ سکی
دھاڑیں مار مار رونے لگی
آخر سکول ہی تو گیا تھا
ایسا کیا ظلم کر دیا
کہ کسی ظالم نے اس کی جاں لے لی
خون کی ہولی کھیل کر
درجنوں ماؤں کی جنت چھین لی
خود کی آخرت بھی خراب کی
اور ماؤں کی آہ بھی ساتھ لی
ننھی جانیں ابدی نیند سلا دیں
اور اپنی جان بھی ساتھ گنوا دی
خیر اب تو بس
گلابی گلاب ہے
اور سرمئی کتاب
مگر مجھے پھر بھی
ایک بات سمجھ نہیں اتی
سرمئی کتاب اور گلابی گلاب
بھلا دونوں کا کیا تعلّق ہے
Dedicated to Army Public School Peshawar Students,teachers and their Parents...
Friday, 15 July 2016
Friday, 24 June 2016
پھر کیوں؟؟؟
پھر کیوں؟؟؟
اسپیشل SAd
خودی میں جیتا ہوں
خودی میں مرتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
نمازیں بھی پڑھتا ہوں
گناہ بھی کرتا ہوں
سجدے میں بھی جھکتا ہوں
حق بھی منگتا ہوں
پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
دوسروں کے حقوق سلب کرتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
بغض بھی رکھتا ہوں
حسد بھی کرتا ہوں
دل بھی دکھاتا ہوں
آگ بھی لگاتا ہوں
پھر کیوں؟؟ پھر کیوں؟؟؟
حاسد سے پناہ بھی منگتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
سجدے میں بھی جھکتا ہوں
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
صبح کو اٹھتا ہوں
دفتر بھی جاتا ہوں
کام سے چڑتا ہوں
مشقت سے ڈرتا ہوں
پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
صلہ میں آسائشیں منگتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟؟
قرآن بھی پڑھتا ہوں
حدیث بھی سنتا ہوں
خلقت کو ادنیٰ سمجھتا ہوں
خود اخلاق سے گرتا ہوں
پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
بدلے میں عزت منگتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
روزے بھی رکھتا ہوں
راتیں بھی جگتا ہوں
حج کو بھی جاتا ہوں
استطاعت بھی رکھتا ہوں
پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
زکات میں چوری فرض سمجھتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
سادی سی زندگی ہے
اس میں نہ کوئی تنگی ہے
نوکری بھی لگی ہے
قسمت بھی دھنی ہے
پھر کیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
ہر ہر خواہش پر جیتا مرتا ہوں
یارب! کیا میں تجھ سے
واقعی میں ڈرتا ہوں؟؟؟
یہ دنیا تو فانی ہے
اک دن مٹ جانی ہے
اک دن سب نے جان گنوانی ہیں
رب کے سامنے حاضری لگانی ہے
اور رب تو عالی ہے
رحمت اس نے دکھانی ہے
جس نے بھی کہا کہ کوئی رب نہیں اس کے سوا
اس کی مغفرت فرمانی ہے
پھرکیوں؟؟؟ پھر کیوں؟؟؟
کسی نے دنیا اور آخرت دونوں گنوانی ہے
بدلے میں عزت منگتا ہوں
سن اے انسان تو!!!
سن لے ذرا تو
خودی میں نہ جیا کر تو
خودی میں نہ مرا کر تو
سن لے ذرا تو
خودی میں نہ جیا کر تو
رب سے ناتا جوڑ لے تو
بات یہی سیانی ہے
اسی رب کو یاد کیا کر کیا کر تو
اسی نے مغفرت فرمانی ہے
اس میں بھلا کیا پریشانی ہے
بس آسانی ہی آسانی ہے
بس اتنی سی کہانی ہے
قبر میں رات بتانی ہے
پھر کس کی مدد آنی ہے
رب نے ہی بگھڑی بنانی ہے
اسی کے ہاتھ میں ہی ناکامی ہے
اس کے سنگ ہی کامرانی ہے
گر یہ تبلیغ تو چلتی جانی ہے
مگر تجھ کو کب سمجھ آنی ہے؟؟؟؟
قبر میں رات بتانی ہے
پھر کس کی مدد آنی ہے
اسی کے ہاتھ میں ہی ناکامی ہے
اس کے سنگ ہی کامرانی ہے
گر یہ تبلیغ تو چلتی جانی ہے
مگر تجھ کو کب سمجھ آنی ہے؟؟؟؟
آخر کیوں ہم یہ بات نہیں سمجھتے کہ یہ دنیا فانی ہے. یہ زندگی اور اس کی تمام آسائشیں فانی ہے. یہ سب کچھ ایک دن ختم ہو جائے گا اور سب لوگ الله کے حضور پیش ہوں گے اور وہاں ہی سزا اور جزا کا فیصلہ کیا جائے گا. اسلئے میرے بھائیو!!! اپنی سمت سہی کرو اور الله کا ڈر دل میں بسا لو پھر دیکھنا وہ کیسے بگھڑی بناتا ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی سے نوازتا ہے.......
Saturday, 18 June 2016
فروری کی پندھرویں برسات
نہ ہی وہ جنوری کی کوئی ساعت تھی
ہاں مگر وہ فروری کی پندھرویں برسات تھی
جب ہم تم سے اور تم ہم سے بچھڑے تھے
ایسے جیسے اک ٹہنی کے دو پتے بکھرے تھے
گل گلستان سے اجھڑے تھے
خواب ہمارے بکھرے تھے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
جھاڑے کے موسم کے گزرنے کا انتظار ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے رکنے کا انتظار ہے
اب تو بس ہمارے ملن کا انتظار ہے
وقت کے یکسر بدلنے کا انتظار ہے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
خواب ہمارے بکھرے تھے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
جھاڑے کے موسم کے گزرنے کا انتظار ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے رکنے کا انتظار ہے
اب تو بس ہمارے ملن کا انتظار ہے
وقت کے یکسر بدلنے کا انتظار ہے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
Friday, 27 May 2016
غریب
خواہشوں کا مطیع ہوں
آسائشوں سے فصیح ہوں
مگر لذتوں کا صبیح ہوں
محفلوں کا امیر ہوں
مگر حماقتوں کا جریر ہوں
گمان سے شفیع ہوں
مگر اخلاق سے قبیح ہوں
بظاہر تو میں مسیح ہوں
مگر باطن میں حقیر ہوں
ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہوں
جہاں موقع مل جائے وہیں سب کا پیر ہوں
شاید اسی لئے دنیا میں تو رفیع ہوں
مگر حقیقت میں ایک مریض ہوں
کہنے کو تو طالب بقیع ہوں
مگر!!! مگر!!! میں تو باغئ سمیع ہوں
ہاں میں غریب ہوں
خواہشوں کا مطیع ہوں
*مفہوم الفاظ*
*مطیع ----- طابع ، فرمانبردار، غلام
* فصیح ---- یہاں مالا مال کے طور پر استعمال ہوا ہے
* جریر ---- دلیر، بہادر
*قبیح ---- بد، برا
*صبیح --- ادھر طلبگار کے طور پر استعمال ہوا ہے
*رفیع --- کامیاب، بلند، ترقی یافتہ
*بقیع --- جہن بہت زیادہ درخت ہوں، جنت سے
*سمیع--- سننے والا، الله کا نام
ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہوں
جہاں موقع مل جائے وہیں سب کا پیر ہوں
شاید اسی لئے دنیا میں تو رفیع ہوں
مگر حقیقت میں ایک مریض ہوں
کہنے کو تو طالب بقیع ہوں
مگر!!! مگر!!! میں تو باغئ سمیع ہوں
ہاں میں غریب ہوں
خواہشوں کا مطیع ہوں
*مفہوم الفاظ*
*مطیع ----- طابع ، فرمانبردار، غلام
* فصیح ---- یہاں مالا مال کے طور پر استعمال ہوا ہے
* جریر ---- دلیر، بہادر
*قبیح ---- بد، برا
*صبیح --- ادھر طلبگار کے طور پر استعمال ہوا ہے
*رفیع --- کامیاب، بلند، ترقی یافتہ
*بقیع --- جہن بہت زیادہ درخت ہوں، جنت سے
*سمیع--- سننے والا، الله کا نام
Wednesday, 25 May 2016
The Fear
The Fear
SAd
The fear of dying
Dying from inside
Why it keeps haunting
The fear of losing
Losing someone very special
Why it keeps hurting
The fear of being alone
Alone in the dark
Why it keeps trembling
and
The fear of being unworthy
undesired
Why it keeps accumulating
When in reality
Life never stops
It goes on
The pendulum of the clock
Never stops
It Goes
On and on
On and on
Tick tock Tick Tock
Until those strange fears
The fears of becoming unknown
Becomes the reality
The very soul
That once matted
Matter no more
Matter no more
Friday, 13 May 2016
دل لگی
ہم بولے:-
پھر دل پر کیوں لگی تھی؟
وہ بولے:-
جو بھی تھا مگر عشق نہیں تھا
ہم بولے:-
مگر وہ مرید بھی نہیں تھا
جو بھی تھا حسیں بہت تھا
اس کا نہ ہونا غمگیں بہت تھا
جب وہ تھا مانو ایسے تھا جیسے
میں ابھی اسی وقت سب کچھ وار دوں گا
اپنے سب غم، سب پریشانیاں
اک جھٹکے میں بھلا دوں گا
بس اس کو سنوں گا اور سنتا چلا جاؤں گا
وقت کے سب پیمانے یکسر گھما دوں گا
اس کو اتنا پیار دوں گا
کہ روٹھنا تک بھلا دوں گا
مگر کیا بتاؤں کہ میں خود ہی بیوفا نکلا
میں خود اپنے ہی درد میں مبتلا نکلا
جب اس کو میری ضرورت پڑی
میں ہی دنیا سے بیزار نکلا
مگر ابھی بھی امید کا دامن تو اب بھی نہیں چھوڑا
اک خواہش نے ناتا اب بھی نہیں توڑا
اک خواہش کہ کاش وہ راضی ہو جائے
اور وہ دل پر لگی پھر سے مان جائے
سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے
وہ میرا ہنسنا وہ میرا کھیلنا سب لوٹ آئے
بس ایک بار اس کا جینا مرنا میرے سنگ ہو جائے
تنے تنہا یوں جینا بصم ہو جائے
اس کا ملنا ایک رسم ہو جائے
پھر چاہے آنکھ کا کھلنا بند ہو جائے
بس ایک بار اس کا جینا مرنا میرے سنگ ہو جائے
تنے تنہا یوں جینا بصم ہو جائے
اس کا ملنا ایک رسم ہو جائے
پھر چاہے آنکھ کا کھلنا بند ہو جائے
Subscribe to:
Posts (Atom)