درد عشق میں مبتلا ہم کبھی نہ تھے
چین سے سونا فطرت تھی ہماری
فقط بے چینی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے
سیدھی سادھی سادہ سی زندگی تھی ہماری
ارادے بلند اور نازک سی ادا تھی ہماری
نہ کچھ خاص پانے کی چاہ تھی
نہ کچھ انمول کھونے کا خواہش تھا ہماری
من موجی سے ہی تھے ہم
ہمیشہ اپنی ہی دھن میں مگن
بلکل ایسے جیسے تازگئ حسن
بلکل ایسے جیسے تازگئ حسن
شوخ چنچل رہبر سخن
گر پھر تم زندگی میں آئے
سنگ باد سبا کا پیام لائے
ناز و نکھروں سے پلے
زمانے بھر کے رنگ مانگ لائے
آئے تو کسی تیز گھٹا کی مانند آئے
ایسے جیسے چند بوندیں ادھار لائے
کالے بادلوں کی طرح
صحرا میں امید طوفاں لائے
مگر بوقت ضرورت برسنا بھول آئے
پھر بھی بے وفا ہم ہی کہلائے
سنو! اگر سن سکو تو
تم سے ملنا قسمت تھی
تم کو چاہنا ضرورت تھی ہماری
تم سے مل کر بکھرنا عادت تھی ہماری
مگر تم سے بچھڑنا تباہی تھی ہماری
پھر بچھڑ کر سمٹنا مجبوری تھی ہماری
مگر بیوفائی کرنا
نہیں نہیں ہرگز نہیں
بے وفائی کرنا کبھی نہیں تھی عادت ہماری
کیوں کہ بیوفائی سے آشنا ہم کبھی نہ تھے
No comments:
Post a Comment