لو لگا بیٹھی تھی
SAd
شدت غم میں نڈھال بیٹھی تھی
جوانی اپنی گزار بیٹھی تھی
ساری عمر نوک جھوک کرتی
زندگی ٹصل میں اجاڑ بیٹھی تھی
مگر کل رات سجدے میں گرتے ہی
سایہ سائیں کا مانگ بیٹھی تھی
ہر وقت کوسنا فطرت تھی جسکی
آج ناک رگھڑھتی منت سماجت کربیٹھی تھی
سائیں کی خاطر جھولی پھیلائے
بیش بہا آنسو بہا بیٹھی تھی
بستر مرگ پر لیٹا جچتا نہیں تھا اسکو
نجانے کتنے جوڑے پہنا بیٹھی تھی
دن رات خدمت کرتی اب تھکتی نہ تھی
نجانے کتنی کوتاہی پہلے دکھا بیٹھی تھی
بال بچوں اور رشتہ داروں پر بڑا برا ناز تھا
آج ان سب کو بھی آزما بیٹھی تھی
ساتھ سائیں کا، سایہ سائیں کا کیا چیز ہے
تلخ حقیقت دیر سے سہی مگر جان بیٹھی تھی
سردی، گرمی، دھوپ، چھاؤں، پتجھڑ، ساون
گر سارے موسم یکسر گزار بیٹھی تھی
خیر دن گزرتے گئے، شامیں ڈھلتی گئیں
ساتھ سائیں کا چھوٹ گیا، راز تنہائی کا ٹوٹ گیا
بچ گیا تو اک خالی کمرہ
وہ بھی ٹوٹا پھوٹا
اپنی حالت زار دیکھ کر
اپنی ذات کو ہی گنوا بیٹھی تھی
سونا سونا آہستہ آہستہ وقت جو گزرا
تنہا جینا خود کو سکھا بیٹھی تھی
کل تک جو نماز تک بھی نہ پڑھتی تھی
آج وقت سے پہلے ہی مسلہ بچھا بیٹھی تھی
تسبیح ہاتھوں میں پکڑے بس اب الله الله کرتی تھی
دیر سے سہی مگر رب سے لو لگا بیٹھی تھی
بہت عرصے بعد کوئی نظم لکھتے ہوئے مجھے اتنا لطف آیا ہے. امید کرتا ہوں آپ کو بھی پسند آئے گی.
شکریہ !!!
ا
No comments:
Post a Comment