نہ ہی وہ جنوری کی کوئی ساعت تھی
ہاں مگر وہ فروری کی پندھرویں برسات تھی
جب ہم تم سے اور تم ہم سے بچھڑے تھے
ایسے جیسے اک ٹہنی کے دو پتے بکھرے تھے
گل گلستان سے اجھڑے تھے
خواب ہمارے بکھرے تھے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
جھاڑے کے موسم کے گزرنے کا انتظار ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے رکنے کا انتظار ہے
اب تو بس ہمارے ملن کا انتظار ہے
وقت کے یکسر بدلنے کا انتظار ہے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
خواب ہمارے بکھرے تھے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
جھاڑے کے موسم کے گزرنے کا انتظار ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے رکنے کا انتظار ہے
اب تو بس ہمارے ملن کا انتظار ہے
وقت کے یکسر بدلنے کا انتظار ہے
انتظار! انتظار! انتظار!
اب تو بس انتظار ہے
No comments:
Post a Comment