Tuesday 15 August 2023

جشن آزادی

 جشن آزادی

SAd                                                             


اک زمانہ تھا جب ہم بھی جشن آزادی مناتے تھے 
اب تو بس بچوں اور بوڑھوں کے نخرے اٹھاتے ہیں 

Saturday 18 February 2023

چھوٹی سی کھڑکی

چھوٹی سی کھڑکی
                               نائیل



کیوں مجھے چین  نہیں آتا
کیوں تیرا نام زباں پہ نہیں آتا

پوچھ دن رات کیسے کٹتے ہیں
صبح شام تیری یاد میں آرام نہیں آتا

چھوٹی سی کھڑکی دل میں کھلی رکھی ہے
بس اک تیرا مکھڑا اب کہیں نظر نہیں آتا

Thursday 16 February 2023

ایک قانون

ایک قانون

                  SAd





وہ جو ہر روز تسبیح پڑھتے تھکتا نہیں تھا کہ
طاقتور کو کمزور کی طرح کٹھرے میں لاؤں گا

میری بیٹی بھی چوری کریگی تو اسکا ہاتھ کاٹونگا
طاقتور اور کمزور کیلئے ایک قانون بناؤنگا

اسے جب میرے رب نے اقتدار دیا
تو یہ طاقت کے نشے میں چور ہو گیا

خود کو سیاہ سفید کا مالک سمجھ بیٹھا
دوسروں کو حکارت سے دھتکارنے لگا

غرور و تکبر سے سرشار جلاد بن بیٹھا
چہرے پر ہاتھ پھیر کر ٹڑی لگانے لگا

مجھے واپس جانے دو، دیکھو میں کیا حال کرتا ہوں
واپس آنے دو دیکھو، کیسے اے سی اترؤاتا ہوں

مگر ہواؤں کا رخ بدل گیا، ظلم جھک گیا
اقتدار چھن گیا، کسی صابر کا صبر جیت گیا

خدا کی کرنی دیکھو، کیسے وقت پلٹ گیا
ظالم آج خود کٹھرے میں کھڑا ہوگیا

جب منصف نے کیے کا جواب مانگا
تو خود سے عجب منطق گڑھ لایا

 بولا میں مقبول ہوں، میں طاقتور ہوں 
مجھ سے تو کوئی سوال ہو نہیں سکتا

کسی میں اتنی جرأت نہیں
مجھ سے سوال کرسکے

کسی میں اتنی طاقت نہیں
مجھے گرفتار کرسکے

ہاں اگر کوئی میری طرف بڑھے گا
تو میں غریب لوگوں کو ڈھال بناؤنگا

غریب کے بچے جیل جائنگے
غریب کے بچے گولی کھائیںگے

میں بنی گالہ میں رہوں گا، آرام کرونگا
کیونکہ میں مقبول ہوں، میں طاقتور ہوں 

مقبول تو نمرود بھی تھا، طاقتور تو فرعون بھی تھا
مگر جب خدا کی پکڑ آئی تو دونوں فنا ہو گئے

ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، سنبھلنے کا وقت باقی ہے
سنبھل جاؤ بیوقوف! اپنا سر جھکا دو! رب سے توبہ کر لو!

ورنہ زندگی میں تو رسوائی ہے ہی
مگر آخرت میں تباہی ہی تباہی ہے




Saturday 23 July 2022

ترجماں

انصاف
                       نائیل


ہم انصاف کی امید کیسے لگائیں نائیل

جب منصف کی نشونما ہی خلاف گماں ہو


دل کو بھلا پھسلا کر مان بھی جائیں مگر

فیصلہ تو آئین اور قانون کا ترجماں ہو

Monday 27 December 2021

میرا ملک ڈوبی جاندا

میرا ملک ڈوبی جاندا
                            SAd Special
                                         

میرا ملک ڈوبی جاندا
تے عمران ٹھٹھے مارے

عوام ظلم دی چکی وچ پسن
تے ترجمان اکھاں کڈ کڈ دکھاوے

غریب دا چولہا چل دا نہی
تے ظالم جہاز وچ گھیڑے مارے 

دوجے دی مجھ نی جر دا
تے آپے ہیلی کاپٹر وچ گھر جاوے

میرا ملک ڈوبی جاندا
تے عمران ٹھٹھے مارے

دودھ دہی گھی چاول سب مہنگا
پوچھو تے چور ڈکیت دے نعرے مارے

کہندا سی مدینہ دی ریاست بنانی
تے لوکاں دے منہ چوں نوالے کڈ کڈ کھاوے

کہندا سی پولس ملک دی محافظ ہوندی
تے ہن دن دھاڑنے سیالکوٹ وچ بچے مارے

تیاں پہناں نوں عزت کی دینی سی
اناں دی عزتاں تے فیس بوکاں تے اچھالے

میرا ملک ڈوبی جاندا
تے عمران ٹھٹھے مارے

صبح توں چوٹھ بولنا شروع ہوندا
رات نوں تھک کے کھڑ سو جاوے

پہلے عوام دے نال گھر دے وعدے کردا سی
تے ہن عوام دی جھونپڑی تے کریناں چلاوے

کہندا سی قرض لینا ہویا تے خود کشی کرلاں گا
خود کشی کی کرنی سی بس قرضے تے قرضہ چڑھاوے

اپنا گزارا اپنی تنخوا وچ نہی ہندا
تے لوکاں دی روزی تے ڈکے لاوے

میرا ملک ڈوبی جاندا
تے عمران ٹھٹھے مارے

ایندے لئے سارے تاجر کرپٹ
تے سارے کسان چور ڈکیت

سارے جہاں وچ اک ایہی سچا
جو صادق تے امین کہلاوے

جے اگر کسے نے چا پی لی
ایدی تے جاں نکل جاوے

 نہ ایدی عوام چنگی نہ ایدی ٹیم چنگی
بس آپے ہی آپ نوں پھنے خاں کہلاوے

میرا ملک ڈوبی جاندا
تے عمران ٹھٹھے مارے

وے پلھیا توں پلھ گیا
وے بھٹکیا توں بھٹک گیا

اے اقتدار میرے رب دی امانت آ
جد میرے رب چاہے واپس لے لوے 

تیرے توں پہلے بڑے آئے بڑے گئے
تیرے بعد بھی بڑے آنے بڑے جانے

 اصل حاکم میرا رب ای آ
تے ہمیشہ میرے  رب نے ای رہنا

تو آ دس کے تیرا کی ہونا
جد تیرا اقتدار تیرے کول نہی رہنا

جد تیری صحت تیری نہیں رہنی
جد تیرا غرور خاک وچ مل جانا

ایداں اداں جاں چلی جانی
رب دے سامنے پھیر حاضری لانی

سوال ہونا کہ جد میں اقتدار دیتا
تے تو میری مخلوق لئی کی کیتا 

اپنی عوام لئی کی کیتا
اپنی شان لئی کی کیتا

تے کی جواب دیںگا پھیر
کویں چوتھ بولیں گا پھیر

کہ جد میری عوام پکھی مر دی سی
تے میں عالمی مہنگائی دس دا سی

تے میں چور چور کہندا سی شور وور کر دا سی
کوئی ثبوت منگے تے سنی سنائی گل کہندا سی

ہن وی وقت آ پھڑ لے سیدھی راہ
نہی تے کئیں گا جو وی کیتا سی گناہ ہی کیتا

Saturday 14 August 2021

قریب آؤ

قریب آؤ 
    نائیل                              




آؤ سجن میرے قریب آؤ 
مجھے گلے سے لگاؤ مجھے اپنا بناؤ 
کرو ہزار گلے چاہے ڈانٹ دو مجھے 
مگر نہ جاؤ مجھ سے دور نہ جاؤ 
میری تشنگی سمجھو میرے قریب آؤ 
مجھے گلے سے لگاؤ مجھے اپنا بناؤ 
میرے پاس کیا ہے اک تمھارے سوا 
جو تم بھی روٹھ گئے مجھے تنہا چھوڑ گئے 
تو کون مجھے اپنائے گا اپنا بنائے گا 
اپنا بنا بھی لے تو کیسے تمہاری طرح چاہے گا 
نہ جاؤ دور نہ جاؤ میرے قریب آؤ 
مجھے گلے سے لگاؤ مجھے اپنا بناؤ 
چلو اک پل کیلئے مان لیا ہم لاکھ برے ہیں 
تمھیں ذرا نہیں بھاتے تمھیں ستاتے ہیں 
فقط اسی وجہ سے تم نے ہمیں چھوڑ دیا 
کسی اور کو پا لیا اپنا بھی بنا لیا 
مگر ہماری یاد تو پھر بھی آئے گی 
بہت ستائے گی رات بھر جگائے گی 
تو پھر کیا کرو گے کس کو بلاؤ گے 
حال دل کس طرح چھپاؤ گے 
اپنا دکھڑا کس کو سناؤ گے 
ہمیں کیسے بھول پاؤ گے 
صنم اتنا پچھتاؤ گے تو کیسے جی پاؤ گے 
لوٹ کر ہمارے پاس ہی واپس آؤ گے 
جب لوٹنا ہی ہے تو لوٹ آؤ میرے قریب آؤ 
مجھے گلے سے لگاؤ مجھے اپنا بناؤ 


Monday 10 August 2020

منتظر

منتظر 
نائیل          


منتظر ہوں تو وجہ کیوں پوچھتے ہو 
انتظار ہے جس کا وہ تم تو نہیں 



Thursday 4 June 2020

Hold onto

Hold Onto
                 SAd



I don't know why
But I want to hold onto
Hold onto your memory
Your memory of being with me
Just be with me          
Be in that exact moment
Just be with me
Smiling with me
Quarreling with me
Connecting with me
Resolving with me
Aspiring with me
Shining with me
Gasping with me
Rising with me
Confessing with me
Being in love with me
Being in love only with me
Splitting with me
Falling with me
Sinking with me
Acquainting with me
Cheering with me
And that one last time
Failing with me

Sunday 31 May 2020

خطا ہوگئی

خطا ہوگئی
              نائیل




ہم تمھارے شہر میں تھے
کہ  تمہارا گمان ہوا
تمہارا گمان ہوا
یہ جانتےہوئے بھی کہ
اب تم میرے نہیں ہو
کسی اور کے ہو چکے ہو
آج سے نہیں، کچھ لمحوں سے نہیں
برسوں سے کسی اور کے ہو چکے ہو
مگر پھر بھی تمہارا گمان ہوا
سارا شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا
زندگی کی نوید سنا رہا تھا
اور ہم تمہارا گمان کر بیٹھے
دیکھو کیسی خطا ہو گئی
غلطی سے دعا مانگ بیٹھے
دعا میں تمھیں مانگ بیٹھے
زندگی میں پہلی بار تمہارا نام لے کر
تمھیں مانگ بیٹھے
یہ جاننے بوجھنے کے باوجود کہ
اب تم کسی اور کے ہو چکے ہو
ہم تمھیں مانگ بیٹھے
دیکھو کیسی خطا ہوگئی
تمھارے لئے خوشیاں مانگتے مانگتے
تباہی مانگ بیٹھے
اب کیا کریں، کسی سے کیا کہیں
جب خود جانتے بوجھتے
ایسی خطا کر بیٹھے
عاشقی کا دعوہ کرتے تھے
عشق کو ہی داغ لگا بیٹھے

Wednesday 18 March 2020

سالوں بیت گئے

سالہسال  بیت گئے

نائیل                                  


سالہسال بیت گئے اس دن کو
جس دن تم نے ہم سے
پہلی بار
چاہت کا سوال کیا تھا
اور ہم تو پہلے سے ہی
اسی کشمکش کا شکار تھے
کہ تم سے سوال کریں یا نہ کریں
اپنی چاہت کا اظہار کریں یا نہ کریں
تم پر اعتبار کریں یا نہ کریں
اپنی زندگی جئیں یا پھر تمھیں چننے 
ہم سے غلطی ہو گئی
ہم نے تمھیں چن لیا
دل و جان سے اپنا مان لیا
کیا ہی برا فیصلہ کیا
تمہارا ساتھ چھوٹ گیا
نہ پھر تم کبھی مل سکی
نہ پھر ہم کبھی سمبھل سکے
سالہسال بیت گئے
ہم در بدر بھٹکتے رہے
کوئی سہارا نہ مل سکا
کوئی کوچہ کوئی کنارہ نہ بن سکا
اور ہم ہمیشہ تمھیں یاد کرتے رہے
تاریک گلیوں میں تلاش کرتے رہے
شاید تم کبھی تھی ہی نہیں
تھی تو پھر کوئی کلپنا تھی
نہیں تو پھر کوئی سپنا تھی
جو آنکھ کھولتے ہی ٹوٹ گیا
نجانے اسی الجھن میں
کتنے ہی سال بیت گئے
مگر آج بھی تمھیں یاد کرتے ہیں
سارا دن ساری رات تمہارا انتظار کرتے ہیں
ٹھیک اسی جگہ جہاں تم پہلی بار ملی تھی
ٹھیک اسی جگہ جہاں پھر آخری ملاقات ہوئی تھی
مگر اب یقین سا ہو چلا ہے
کہ تم پھر کبھی نہ ملو گی
ہم پھر کبھی نہ بچھڑیں گے
اور یہ دل پھر کبھی نہ ٹوٹے گا

Thursday 5 December 2019

قبول ہے

قبول ہے
                          نائیل 

کل ان سے اک آخری ناتا بھی ٹوٹ گیا
ساتھ لمحے بھر کا مدتوں کیلئے چھوٹ گیا

اب چاہے جو بھی ہو فیصلہ
قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے

ہمیں ان کے بنا بھی جینا
منظور ہے، منظور ہے، منظور ہے

Tuesday 29 October 2019

مسکراتے رہتے ہیں

مسکراتے رہتے ہیں
                                 نائیل 



بڑے بوڑھوں سے سنا تھا
جنہیں عشق کا روگ لگ جائے 
وہ اکثر مسکراتے رہتے ہیں
غم اپنا چھپاتے رہتے ہیں
ہم بھی کچھ دنوں سے
بلا وجہ مسکراتے رہتے ہیں
شاید عشق کے روگی ہیں
جو غم اپنا چھپاتے رہتے ہیں

Thursday 17 October 2019

مدعا

مدعا

                      SAd



کسی اجنبی کے رخسار پر
ٹکی تھی نظر
مگر خیال ان کا تھا
برا حال جن کا تھا

ناراضگی واضح تھی
کچھ بھلا کیسے پوچھتے 
جب سوال بھی ان کا تھا
جواب بھی ان کا تھا

کٹہرے میں تو ہم کھڑے ہوگئے
مگر سزا سے کیسے بچتے
جب مدعا بھی ان کا تھا
منصف بھی ان کا تھا