سالہسال بیت گئے
نائیل
سالہسال بیت گئے اس دن کو
جس دن تم نے ہم سے
پہلی بار
چاہت کا سوال کیا تھا
اور ہم تو پہلے سے ہی
اسی کشمکش کا شکار تھے
اسی کشمکش کا شکار تھے
کہ تم سے سوال کریں یا نہ کریں
اپنی چاہت کا اظہار کریں یا نہ کریں
تم پر اعتبار کریں یا نہ کریں
اپنی زندگی جئیں یا پھر تمھیں چننے
ہم سے غلطی ہو گئی
ہم نے تمھیں چن لیا
دل و جان سے اپنا مان لیا
کیا ہی برا فیصلہ کیا
تمہارا ساتھ چھوٹ گیا
نہ پھر تم کبھی مل سکی
نہ پھر ہم کبھی سمبھل سکے
سالہسال بیت گئے
ہم در بدر بھٹکتے رہے
کوئی سہارا نہ مل سکا
کوئی کوچہ کوئی کنارہ نہ بن سکا
اور ہم ہمیشہ تمھیں یاد کرتے رہے
تاریک گلیوں میں تلاش کرتے رہے
شاید تم کبھی تھی ہی نہیں
تھی تو پھر کوئی کلپنا تھی
نہیں تو پھر کوئی سپنا تھی
جو آنکھ کھولتے ہی ٹوٹ گیا
نجانے اسی الجھن میں
کتنے ہی سال بیت گئے
کتنے ہی سال بیت گئے
مگر آج بھی تمھیں یاد کرتے ہیں
سارا دن ساری رات تمہارا انتظار کرتے ہیں
ٹھیک اسی جگہ جہاں تم پہلی بار ملی تھی
ٹھیک اسی جگہ جہاں پھر آخری ملاقات ہوئی تھی
مگر اب یقین سا ہو چلا ہے
کہ تم پھر کبھی نہ ملو گی
ہم پھر کبھی نہ بچھڑیں گے
اور یہ دل پھر کبھی نہ ٹوٹے گا
No comments:
Post a Comment