ذرا سی جھل مل میں ہمیں بہت ستاتی ہے
ذرا سی کھٹ پٹ میں لڑائی چھڑ جاتی ہے
ذرا سی چک چک سے بات بگھڑ جاتی ہے
بہار میں پھولوں کی خوشبوں ماحول کو تلملاتی ہے
نظر سے نظر ملانے کی خواہش جاگ جاتی ہے
دل کی دل سے، جان کی جان سے انسیت بڑھ جاتی ہے
فقط زمانے کی روڑے اٹکانے کی عادت آڑے آجاتی ہے
بیاباں میں بھی تو کلی کھل ہی جاتی ہے
پھر آخر کیوں محبت کی لڑی مرجھ جاتی ہے
امیدوں کے ساغر میں جب تتلی ڈبکی لگاتی ہیں
عاشقوں کی منزل کیسے اپنا رستہ بھول جاتی ہیں
نجانے کیوں حکومت مسائل میں گھر جاتی ہے
ذرا عوام سے پوچھو وہ کیوں کوئی امید لگاتی ہے
تیری یاد جب بھی ہم کو زیادہ ستاتی ہے
حکمت سے بھڑ کر دل میں اپنا راستہ بناتی ہے
ذرا سی آہٹ سے اکثر دھڑکن تیز ہو جاتی ہے
ڈوبتی نییہ کو پار لگانے کی ترکیب سمجھ آتی ہے
جب بھی گریبان میں جھانکنے کی فرصت مل جاتی ہے
شرم سے میری نظر یقدم سے کیوں جھک سی جاتی ہے
کافی دنوں بعد کوئی چیز اتنی آزادی سے لکھی ہے اور جب آزادی سے لکھو تو ٢٠ منٹ ہی لگتے ہیں. اصل میں پکلے کچھ عرصے سے میں پریشان تھا اور پھنسا ہوا بھی. اسی لئے میں میرا اعتماد بھی اپنے اپر سے کم ہو گیا تھا. اب چونکے میں اپنے مسائل سے تقریباً آزاد ہو چکا ہوں اور میرے سینے پر کوئی بوجھ بھی نہیں ہے، اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے. امید ہے میں میں اور بہتر اور اچھا لکھ سکوں اور لوگوں کو فلاح کی طرف راغب کرسکوں. آمین!
اس میں کچھ جگہ پر الفاظ غلط لکھے ہو سکتے ہیں. اگر آپ کو ایسا لگے کہ یہ لفظ غلط ہے تو اس کی نشاندھی کر دیجئے. میں آپ کا مشکور ہوں گا.
No comments:
Post a Comment