دل کا دل سے میل ملائیں
ایک بار پھر سے وہ زمانہ جیئیں
کچھ یاد کریں اور کچھ یاد کرائیں
ایک بار پھر سے وہ زمانہ جیئیں
کچھ یاد کریں اور کچھ یاد کرائیں
وہ امتحانوں کے دن تھے شاید
مصیبتوں کے دن تھے زائد
تیاری تو برائے نام ہی تھی
زندگی بھی کسی کام کی نہ تھی
ہم کچھ عجیب تھے نقل کرنا تو ٹھیک
مگر پکڑے جانے کو اک جرم مانتے تھے
مگر پکڑے جانے کو اک جرم مانتے تھے
اتنا معلوم تھا کے بن ثبوت کے استاد بھی کچھ نہ تھا
اسی لئے بوٹی تو کیا اس کا نام-و-نشان نہ تھا
گزرا تھا پہلا پرچہ بہت ہی بھاری
دوسرے کا تو سرے سے سوال نہ تھا
دے کر پرچہ کی تھوڑی مستی
چونکہ لوٹنا سرعام نہ تھا
پھر پہنچے اسی جگہ جہاں کوئی کام نہ تھا
میرا اور میرے رقیب کا کوئی گمان نہ تھا
ہمیشہ کی طرح ہانکنے لگے گپیں، کرنے لگے چرچے
گزرتے لمحوں کا ذرا بھی حساب نہ تھا
نجانے وہ کیسی آہٹ تھی
شاید ساری زندگی کی چاہت تھی
بےاختیار چل پڑا کہہ کر خدا حافظ
ملنے ملانے کا وقت اب کام نہ تھا
چل جو پڑے تھے اس کے دیدار کی خاطر
چونکہ چوکھٹ سے اس کی کچھ عیاں نہ تھا
دیکھ کر اس کو پھر سے سر اٹھا نہ تھا
آخرپھر وہی غصّہ کر گیا گھائل
پھرکیوں نہ دیتا دل تو نائیل
خوشیوں سے بھرے تھے باقی سب پل
پھر خوب محنت کرنے لگے تھے ہم
منصوبہ جو کھونے کا جواں نہ تھا
No comments:
Post a Comment