تیسرا دن، تیسری ،ملاقات ، تیسری قسط
نائیل
تھا تو تنہا نکلا علم کی تلاش میں
نہ تھا تجھے کوئی غم ، نہ تھی کوئی تکلیف
تھا شاید تو راضی پر خوش تو نہ تھا
ہیں تھے لاکھوں ارمان پر پھر بھی پر امید
گزرا جب ایک گھر کی چوکھٹ سے
پایا اک بوڑھے انساں کو کار کی صفائی کرتے
سمجھا تو اسکو ما لک، اسکی لگن دیکھ کر
نہیں معلوم تو نےکیاسوچا ، بس چلتا رہا
گزرا جو نوکڑ کی دکان سے
سوچا کچھ کھا لے
پر دل ہی دل میں کیوں انکار کردیا
معلوم تو نہ تھا ایک وقت کی روٹی نہ ملے گی پھر
خیر پہنچا اپنی منزل پر، لگا انتظار کرنے
گزری جو وہی گاڑی تو پڑی نظر تیری
پھر ہوا تیسرا دیدار، تیسرے دن تیری زنگی کے
تھی وہ بھی جا رہی تعلیم کےحصول کی خاطر
تھی وہ بیٹھی پیچھے کسی پری کی طرح
تھا وہی ما لک ملازم کی جگہ
نہ جانے کتنے دن تو اس کو باپ سمجھا
ہوئی ہلچل پھر دل میں پیدا
چڑھ گیا دروازے پر بس کے تعقب میں اسکے
لگا دیکھنے چوری چوری، بےپروا
تھا رش تھوڑا، تھی امید تھوڑی
تھے بادل آسماں پراور ٹھنڈ زمین پر
تو تھا کھلی ہوا میں ،وہ تھی تھوڑی ناراض
حیرت تھی تجھ کو اک بار بھی نہ دیکھا
بس پھر ساون برسا ،لٹ گیا میلا
رہ گیا تو ڈھونڈھتا بھیڑ میں اسکو
کھو گئی وہ، سو کھو گیاتو بھی تو
پھر تو ملا نائیل سے، کیا سلام
ملا جواب اور چل دیا
تیسرا دن، تیسری ملا قات
یہ دو تھے تیری زندگی میں آئے بہار کی ماند
دے گئے دکھ کسی ظالم کی ماند
ہے اب تو صرف رب پر بھروسہ
کیا کوئی یار،کیا کوئی فریاد
کیا کوئی اعتبار،کیا کوئی انکار
یہ میرے کالج کے تیسرے دن کی کہانی ہے.اس میں دو چیزیں ہوئیں وہ پیش خدمت ہے.
No comments:
Post a Comment