پھر سے
نائیل
گزرا جو اس گلی سے
ہوئی یاد تازہ پھر سے
ہوئی یاد تازہ پھر سے
کھلا ایک پھول خوشی سے
ٹوٹا یہ دل پھر سے
ٹوٹا یہ دل پھر سے
امید سی ہوئی پیدا من میں
اک خواہش جو ابھری پھر سے
لگا کھڑے ہو تم اپنی چوکھٹ پر
کرتے ہوۓ ہمارا انتظار پھر سے
جیسے ہی پڑی تمہاری نظر مجھ پہ
لگے دل ہی دل میں مچلنے پھر سے
لگے دل ہی دل میں مچلنے پھر سے
لو پھر چرائیں نظریں ہم سے
جھک گئی ہماری نظریں پھر سے
اٹھایا جو سر تم نے تکبر سے
لوٹ لیا! لوٹ لیا! یہ جہاں پھر سے
لوٹ لیا! لوٹ لیا! یہ جہاں پھر سے
فقط ہم مسکرا ہی دیے عاجزی سے
یونہی سر جھکائے چل دیے پھرسے
تھا جو فاصلہ چار قدم کا
بڑھتا ہی چلا گیا پھرسے
الجھ گئے ہم تو ایک نئی الجھن میں
کھو گیا چین، کھو گیا سکون پھرسے
نہ آئے ہم کبھی لوٹ کر
رہ گئے یاد کرتے پھرسے
پر یہ تو تھا شاید ماضی بعید
معلوم تھا جو کافی مدت سے
نہیں تھے تم آج اپنی چوکھٹ پر
کیوںکہ گزرنا تھا ہم کو پھرسے
سن! میرے خالق نے مجھے صبر دیا اپنی قدرت سے
میں کبھی نہیں مرتا تیری جدائی کے غم سے
وہی زنگی دیتا ہے، وہی زندگی لیتا ہے
اسی نے جان بخشی، دیا سکون پھر سے
اب اس غزل کے بارے میں کیا تبصرہ کروں؟ اب اپنے بارے میں کیا لکھوں؟ سب کچھ تو سامنے ہے نہ کچھ چھپا ہوا ہے اور نہ ہی کچھ چھپا سکتا ہوں. بس اک ہی ذات سب کا پردہ رکھتی ہے اور وہ میرے خالق کی ذات ہے.
No comments:
Post a Comment