صنم کے شہر گئے
صنم نہ ملا
کچھ نہ ملا
دکھ اتنا ہوا کہ
چین و قرار کہیں نہ ملا
صنم کی یاد بہت آئی
آنکھ تک بھر آئی
لاکھ سمجھنا چاہا
سمجھ پھر بھی نہ آئی
دن بدن درد بڑھتا گیا
گپت راز الجھتا گیا
اپنے ہمدرد بنے
دوست رہبر بنے
مگر ہم عشق کے ہاتھوں مجبور
ذرا بھی شفیق نہ بنے
کبھی اس سے خفا ہوئے
کبھی اس سے خفا ہوئے
تنہا زمانے بھر سے بیزار
غم سے چور میخانے آباد ہوئے
بہت بہت شرمسار ہوئے
جگ سارے میں رسوا بدنام ہوئے
حتیٰ کہ بے خودی میں ڈوب گئے
خوشی غمی سب بھول گئے
وقت پھر ایسی نہج پر لے آیا
کہ زندگی اک فسانہ بن گئی
صنم صنم کی پکار
دیدار کا بہانہ بن گئی
گر جب موت کا وقت قریب آیا
خیر خواہ تلخ منظر سہار نہ پایا
بستر مرگ کا پیغام صنم تک پہنچایا
بے رخی بھرا جواب اہل فہم سے چھپ نہ پایا
سلاٍٍ رحمی بھرا جواب بن نہ پایا
افسانہٍ عشق تحریر بن نہ پایا
فقط صنم کی بے رحمی
صنم کے ملال کا سبب بن گئی
صنم صنم کی پکار
میری ذات کا شاخسانہ بن گئی
TRY TRY AGAIN :D:DDDD
No comments:
Post a Comment